نواز شریف اور واجپائی ملاقات میں کشمیر کا ذکر ہی نہیں تھا ،یہ تاثر غلط ہے کہ فوج مسئلہ کشمیر کا حل نہیں چاہتی،اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع غیر مقبول فیصلہ تھا، کبھی بھی نہیں کہا تھا کہ راحیل شریف توسیع مانگیں گے، سوات آپریشن کے بعد امن قائم ہو گیا تھا ، اے این پی کی حکومت نے صوفی محمد کو رہا کردیا تھا،سابق صدر جنرل ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کی نجی ٹی وی سے گفتگو

اتوار 31 جنوری 2016 21:51

نواز شریف اور واجپائی ملاقات میں کشمیر کا ذکر ہی نہیں تھا ،یہ تاثر غلط ..

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 31جنوری۔2016ء) سابق صدر جنرل ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ نواز شریف اور واجپائی ملاقات میں کشمیر کا ذکر ہی نہیں تھا ،یہ تاثر غلط ہے کہ فوج مسئلہ کشمیر کا حل نہیں چاہتی،اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع غیر مقبول فیصلہ تھا، کبھی بھی نہیں کہا تھا کہ راحیل شریف توسیع مانگیں گے، سوات آپریشن کے بعد امن قائم ہو گیا تھا ، اے این پی کی حکومت نے صوفی محمد کو رہا کردیا تھا ۔

وہ اتوار کو نجی ٹی وی پروگرام کو انٹرویو دے رہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے حالات دیکھ کر یہ کہا تھا کہ آرمی چیف کوتوسیع ملنی چاہیے یہ تو کبھی بھی نہیں کہا کہ آرمی چیف توسیع مانگیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ سوات آپریشن کے بعد امن قائم ہو گیاتھا بعد میں پھر اے این پی کی حکومت نے صوفی محمد کو رہا کر دیا تھا ۔

(جاری ہے)

پرویز مشرف نے کہا کہ پاکستانی ہوں اور اپنے ملک سے پیار کرتا ہوں۔

واجپائی اور منموہن سنگھ مسئلہ کشمیر کے حل میں مخلص تھے ۔ انہوں نے کہا کہ مودی کو گلے لگانا اچھا ہے مگر مسائل پر بھی بات ہونی چاہیے ۔ وہ پاکستان مخالف ہیں ان کا رویہ بھی دیکھنا ہو گا ۔ وزیر اعظم کو مودی سے ملاقات میں مسئلہ کشمیر پر بھی بات کرنی چاہیے تھی ۔ انہوں نے کہا کہ میرے دور میں کارگل واقعہ کے باوجود بات چیت ہو رہی تھی ۔ سری نگر سے مظفر آباد بس سروس شروع کی گئی ۔

لائن آف کنٹرول پر فوج کی کمی پر بھی بات ہو گئی تھی ۔ مسئلہ کشمیر پر ہمارے چار نکات کو بھارت نے مان لیا تھا اور منموہن سنگھ پاکستان آنے پر آمادہ تھے ۔پرویزمشرف نے کہا کہ واجپائی اور نواز شریف ملاقات میں کشمیر کا ذکر ہی نہیں تھا ۔ یہ تاثر غلط ہے کہ پاک آرمی بھارت سے بات چیت نہیں چاہتی۔ ہمارے دور میں کالعدم تنظیموں پر مکمل کنٹرول تھا ۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کا افغانستات میں اثر و رسوخ ہے ۔ افغانستان کے بھارتی ایجنسیوں سے براہ راست تعلقات ہیں ۔ حامد کرزئی کے قول و فعل میں تضاد تھا ۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں دہشتگردی کی جڑ تک جانا چاہیے۔ پٹھانکوٹ حملے پر تحقیقات جاری ہیں مگر ہمیں اس پر زیادہ توجہ نہیں دینا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ براہمداغ بگٹی کے را سے تعلقات ہیں اور افغانستان سے کئی بار حوالگی کا مطالبہ کیا تھا مگر افغان ایجنسیز بات کو گول کر گئیں ۔ پرویز مشرف نے کہا کہ 2018 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کے تمام دھڑوں کو اکٹھا کرکے بھرپور شرکت کرینگے۔