آزاد وخودمختار عدلیہ قابل اور محنتی بار کے بغیر نہیں چل سکتیں،انصاف کی فراہمی تبھی ممکن ہے جب دونوں ادارے یکجا ہوکر چلیں، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

بدھ 3 فروری 2016 22:53

ملتان(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔03 فروری۔2016ء) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ہے کہ آزاد وخودمختار عدلیہ قابل اور محنتی بار کے بغیر نہیں چل سکتیں،انصاف کی فراہمی تبھی ممکن ہے جب یہ دونوں ادارے یکجا ہوکر چلیں۔یہ بات انہوں نے گزشتہ شب ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے سالانہ عشائیہ کی تقریب میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ملتان بار ایسوسی ایشن کے وکلاء سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ عوام کے مسائل کا حل چاہتی ہے اور بار ایک اہم ستون ہے۔انہوں نے کہا کہ بار وبنچ کے مابین تعاون سے ہی عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں اور آزاد وخودمختار عدلیہ کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آسکتی۔انہوں نے کہا کہ جب بنچ کو بار کا مکمل تعاون حاصل ہو تو وکلاء کے مقدمات بھی نمٹ سکتے ہیں اور عدلیہ کا بوجھ بھی کم ہوسکتا ہے اور عوام کو انصاف کی فراہمی بھی ممکن ہوسکتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ نوجوان ججوں کے عدالت میں سینئر وکلاء بھی احترام سے آتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا رشتہ ایک اہم رشتہ ہے اور احترام کا رشتہ ہے،ہمیں اس رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ ملتان بار کے ترجمان وکیل کا ایک نامناسب واقعہ رونما ہوا تھا جو ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان کے صدر محمد علی گیلانی اور سینئر وکلاء کے مثبت سوچ کے باعث معاملہ مثبت انداز میں حل ہوگیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ آئندہ اس قسم کے واقعات رونما نہیں ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ بار کے وکلاء کے مقدمات ان کے تعاون سے ہی نمٹ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تحصیل بار سے لیکر سپریم کورٹ بار تک سنگین نوعیت کے کیسز 20فیصد وکلاء کے پاس چلے جاتے ہیں،نوجوان وکلاء کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ محنت کرکے آگے آئیں اور اپنا حصہ حاصل کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ لوگوں کے مسائل جلد از جلد حل ہوں۔انہوں نے کہا کہ ملتان بنچ میں موجود ججز بہترین کارکردگی دکھا رہے ہیں اور اس میں انہیں ملتان بار کاتعاون بھی حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ملتان بنچ میں عمارت اور ججوں میں اضافے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ میری کوشش ہوگی کہ دیوانی کی جو اپیلیں ہیں ان کیلئے خصوصی ڈویژن بنچ تشکیل دئیے جائیں ۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال میں ملتان بنچ میں 40ہزار مقدمات کے فیصلے ہوئے جو ملتان بنچ کے ججز اور بار کے وکلاء کے تعاون سے ہی ہوئے۔انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ بار کے سینئر اور بزرگ وکلاء ہیں ان کیلئے لفٹ کا ہونا ضروری ہے جو جلد لگ جائے گی۔انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ بار میں نئے ججز کی تعیناتی میں بھی ملتان بار کو پہلے بھی حصہ ملتا رہا ہے اور آئندہ بھی ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہائیکورٹ میں جو معمولی نوعیت کی رٹ پٹیشن ہیں ان کو وکلاء کے تعاون سے جلدنمٹایا جاسکتا ہے اوران کے نمٹنے سے جو سنجیدہ مقدمات کا بوجھ بھی ہلکا ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ ملتان بنچ نے وکلاء کے اضافے کی وجہ سے لائبریری میں کتابوں کے اضافے کی بھی ضرورت ہے،جس کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں اور ویب سائٹ بہتر بنائی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ میں تعینات ملتان کے ججوں کا کردار قابل تحسین اور قابل ستائش ہے،انہوں نے اپنی تعیناتی کو منوایا ہے اور عدالت عالیہ میں نئے ججوں کی تقرری میں ملتان کے وکلاء کو اور ملتان کے بار کو آئندہ بھی حصہ دیا جائے گا اور محنتی اور قابل وکلاء کو جج بھی تعینات کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ میری آج جنوبی پنجاب کے تمام بارز کے نمائندوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں اور میں نے ان کی تجاویز نوٹ کرلی ہیں،انشاء اﷲ ان پر بھی عمل ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ میں چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ملتان آنا چاہتا تھا مگر دیگر مصروفیات کے باعث یہاں نہ آسکا،مجھے ملتان آنے کا اور وکلاء سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا،دیر سے آنے پر معذرت خواہ ہوں،میں ضمانت وکالت سے ہی ایک فقرہ سنتا آرہا ہوں کہ بار اور بنچ کا تعاون ضروری ہے۔اس موقع پر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید محمد علی گیلانی نے بھی خطاب کیا اور چیف جسٹس کی ملتان آمد پر ان کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور بہت سارے مطالبات بھی پیش کئے،جن میں سے اکثر پورے کرنے کا چیف جسٹس نے وعدہ کیا