ابھی وقت ہے ، پھر وقت نہیں رہے گا لاوا ابل رہا ہے ، کاشتکار کو نہ بچایا تو کچھی نہیں بچے گا، ہم عوام سے انصاف نہیں کررہے ، ملک دشمن پالیسیاں بنائی جارہی ہیں ، پنجاب اسمبلی میں حکومتی ارکان نے اپوزیشن سے بھی زیادہ سخت موقف اختیار کرلیا، کاشتکارو کو دہرے ٹیکس سے نجات دلانے اور پارلیمانی کمیشن بنانے کا پر زور مطالبہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 10 فروری 2016 21:49

ابھی وقت ہے ، پھر وقت نہیں رہے گا لاوا ابل رہا ہے ، کاشتکار کو نہ بچایا ..

لاہور(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-محمد نوازطاہرسے۔ 10فروری۔2016ء) مسلم لیگ(ن) کے دورِحکومت میںپہلی بار پنجاب اسمبلی میں حکومتی اراکین حکومتی پالیسیوں کے برعکس کاشتکار کے مفاد میں متحد ہوگئے ہیں اورانہوں نے زراعت و ٹیکس سے متعلق تمام پالیسیاںکاشتکاردشمن قراردیتے ہوئے ان پر نظرثانی،دہرے ٹیکس ختم کرنے اورزراعت و کسان کو بچانے کیلئے پارلیمانی کمیشن یا پارلیمانی کمیٹی بنانے ،بھارت سے تجارت پر نظرثانی کرنے اور کالا باغ ڈیم بنانے کا مطالبہ کیاہے -تفصیلات کے مطابق پنجاب اسمبلی بدھ کو بھی مچھلی منڈی بن گئی اور اپوزیشن نے احتجاج کرتے ہوئے واک آﺅٹ کرگئی ، بدھ و اجلاس کے دوران وقفہ سوالات میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے محکمہ صحت کے پارلیمانی سیکرٹری خواجہ عمران نذیر سوالوں کے جواب دیتے ہوئے لمبی تقاریر کا سہارا لیتے رہے اور صوبے میں محکمہ صحت کے متعلق پوچھے گئے جواب پر صوبہ خیبر پختونخوا کا حوالہ دیتے رہے سپیکر نے کئی ایک بار منع بھی کیا لیکن انہوں نے سپیکر کی ہداٰیات پر عمل کرنا مناسب نہ سمجھا جب اپوزیشن نے طبی سہولتوں کے حوالے سے بات کی اور کہا کہ صوبے کے دوردراز کے عوام اور بڑے شہروں میں رہنے والوں کو طبی آلات اور ادوایات کیلئے اگر میٹرو بس یا میٹرو ٹرین کے فند میں سے کچھ فنڈ فراہم کردیے جاےئیں تو یہ عوام کی فلاح ہوگی تو پارلیمانی یکرٹری جذباتی ہوگئے اور محکمہ صحت ایک طرف رکھتے ہوئے میٹرو منصوبوں پر تقریر شروع کردی ، ایوان میں تسلی بخش جواب نہ ملنے پر حکومتی رکن میاں طاہر نے بھی احتجاجا! واک آﺅٹ کیا تاہم بعد میں وہ ایوان میں واپس آگئے ۔

(جاری ہے)

دریں اثنا پنجاب اسمبلی میں زراعت پر بحث کر تے ہوئے حکومتی و اپوزیشن اراکین کاشتکار ں کے مفاد میں متحد ہوگئے ہیں اورانہوں نے زراعت و ٹیکس سے متعلق تمام پالیسیاںکاشتکاردشمن قراردیتے ہوئے ان پر نظرثانی کرنے،دہرے ٹیکس ختم کرنے اورزراعت و کسان کو بچانے کیلئے پارلیمانی کمیشن یا پارلیمانی کمیٹی بنانے ،بھارت سے تجارت پر نظرثانی کرنے اور کالا باغ ڈیم بنانے کا مطالبہ کیاہے سپیکر نے ارکان کے مطالبے پر خصوصی کمیٹی یا پارلیمانی کمیشن بنانے سے پہلے حکومت کا موقف جاننے کی بات کی تو ارکان نے ‘ کاشتکار پر رحم،کاشتکار پر رحم‘کےواسطے دینا شروع کردیے او ر باور کرایا کہابھی اورکتنا وقت انتظار کرنا ہوگا ،ہمیں مصلحتوں سے ہٹ کر حقیقیاورسچ پر مبنی فیصلےکرنا ہوں گے بصورتِ دیگر دیہات میں پکنے والا لاوا قابو سے باہر ہاجائےگا ۔

اپوزیشن نےحکومتیارکان کی تحسین کی ہے کہ انہوں نے ایوان میںکاشتکارکیحقیقی نمائندگیکیہے اور حکومتی پالیسیاں بے نقاب کی ہیںجس پر حکومتی ارکان نے واضح کیا ہے کہ وہ کسی تحسین کیلئے نہیںبلکہ اپنے ضمیر کےمطابق کاشتکاروںکی اصلی حالت بیان کررہے ہیںجوان پالیسیوں کی وجہ سے خود کشیوںپر مجبور ہیں۔ سپیکر رانا محمداقبال کی صدارت میں پنجاب اسمبلی میں زراعت اور کنے کے کاشتکاروںکی شکایات پر عام بحث کے دوران مطالبہ کیا گیا ہے کہ گنے کی خرید پر ملز مالکان کی طرف سے جاری کی جانے والی رسید سی پی آر کوچیک یا پے آرڈر کادرجہ دیا جائے ۔

بدھ کے روز بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومتی رکن طارق باجوہ نے کہا کہ شقوگر ملز مافیا اتنا پاور فل ہے کہ کسی کے کہنے سننے میں نہیں ہے ، اسلئے سی پی آر کو پے آرڈر کا درجہ دیا جائے ، انہوں نے کہا کہ بھارت سے ٹیکس فری سبزیوں اور پھلوں کی تجارت نے پاکستانی کاشتکار کی کمرتوڑ دی ہے ، بھارت سے پچھلے سال پندرہ ارب روپے کے ٹماٹر درآمد کئے گئے ۔ بھارتی درآمدی سبزیوں اور پھلوں کے مضرِ صحت ہونے پر کوئی چیک نہیں ہے ، اس ایوان کے تمام ارکان متحد ہوکر ایسا حل تلاش کریں کہ صوبے کی ستر فیصد کاشتکار آبادی کو کس طرح تباہ ہونے سے بچایا جائے جبکہ کسان کو زرعی ٹیکس سمیے کئی قسم کے ٹیکسوں سے لوٹا جارہا ہے ۔

۔ انہوں نے ایوان میں کی جانی والی تقاریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس ایوان میں ارکان کی لچھے دار تقاریر کی آڈیو ریکارڈنگ اگر ان کے حلقہ انتخاب میں لے جا کر عوام کو سنائی جائے تو زرا تصور کریں کہ عوام ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے، لوگوں نے ہمیں اپنے حق کی آواز بلند کرنے کیلئے ووٹ دیا تھا مگر ہم ان کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے ، ہم سب مصلحتوں کو چھوڑ کر کوئی بڑا فیصلہ کریں ، ہمیں اپنا حق ادا کرنا چاہئے جبکہ کسان خود کشیوں پر مجبورہو چکا ہے ، اس کیلئے ایسے حالات پیدا کرنیوالوں کا تعین کرنا ہوگا ورنہ دیہی علاقوں میں جو لاوا پک رہا ہے ، اگر ابل پڑا تو روکنا بس سے باہر ہوگا ۔

انہوں نے کہا کہ ارکان کے مطالبے پر پارلیمانی کمیشسن بنانے میں کیا ہرج ہے تو سپیکر نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ بھی بنا دیا جائے گا پہلے حکومت کا جواب بھی سن لیں تو انہوں نے کہا کہ کاشتکار پر رحم کھائیں ، اب وقت ہے ، کب زمیندار پر رحم کریں گے ، اس موعقف کو آگے بڑھاتے ہوئے آسف باجوہ نے کہا کہ حکومت کی سبسڈائز پالیسیوں سے کاشتکار کو صحیح فائدہ نہیں مل رہا ، ۔

انہوؓں کا شتکاروں کیلئے زرعی آلات اور پیداواری عوامل پر براہِ راست سبسڈی دینے کا مطالبہ کیا ۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بھارت سے غیر قانونی طور پر ناقص زرعی آلات درآمد کیے جارہے ہیں جن کی روک تھام ناگزیر ہے ، اپوزیشب رکن احسن ریاض فتیانہ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کسان کو چاول اور آلو کی فصل سے ہونے والے نقصان کا زکر کیا اور کہا چاول کی ایکسپورٹ پالیسی پر نثار ثانی کی جائے اور زرعی اجناس کی بین الصوبائی نقہ حمل پر پابندی ختم کی جائے ان کا کہنا تھا کہ شوگر ملوں کے مالکان کی طرف سے کاشتکاروں کو ادائیگی نہ کیے جانے پر اب لوگوں نے گنا بیچنے کی بجائے کماد کو چارے کے طور پر بیچنا شروع کردیا ہے ۔

احسن ریا فتیانہ نے کہا کہ جب افغانستان کو گندم کی ضرورت تھی تو پاکستان کی حکومت نے اپنی گندم کے ذخائر افغانستان کو بیچنے کی بجائے بھارتی گندم افغانستان پہنچانے کیلئے زمینی راستہ فراہم کردیا ہمیں ایسی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا چاہئے ۔ حکومتی رکن ارشد ملک نے بھی دوسری ارکان کے موقف کی تائد کرتے ہوئے تجویز پیش کی کہ کاشتکار کو اپنی اجناس سٹور کرنے اور اپنی مرضی کے مطابق کھلی مارکیٹ میں مڈل کین کے واسطے کے بغیر فروخت کرنے کی اجازت اور جملہ سہولیات دی جائیں ۔

۔ اپوزیشن رکن ڈاکٹر وسیم اختر نے بحث میں حسہ لیتے ہوئے سپیکر کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ ایس ایوان کے دونوں اطراف ( حکومتی اور اپوزیشن بنچوں)کی بے چینی دیکھیں اور ارکان کے مطالبے کے مطابق کمیشن بنائیں ۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف گنے کے کاشکار خوعار ہورہے ہیں دوسری جانب چاول کے کاشکار کو نقصان کے سوا کچھ بو نہیں ملا آلو بھی خوار ہوگیا اور اب گندم کی فصل بھی آنے کے قریب ہے اس لئے حکومت فوری طور پر پہلے سے پڑی گندم کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کرے ورنہ ایک بار پھر کاشتکار لٹ جائے گا اور فائدہ صرف م مڈل میں اور سرمایہ کار اٹھائے گا ۔

ا نہوں نے سی پی آر کو چیک یا پے آرڈر کا درجہ دینے کا مطالبہ دہرایا اور کہا کہ کالا باغ ڈیم بنانے سے بھی ہم بیرون ملک سے سبزیاں اورپھل درآمد کرنے سے نہ صرف بچ جائیں گے بلکہ ایکسپورٹ بھی کرسکیں گے اور بہتر زرعی پالیسی بنا کر بھارت کو اس میدان میں شکست بھی دے سکیں گے ۔ حکومتی رکن شیخ علاﺅالدین نے کہا کہ اس ایوان کے ارکان کی تمام تقراریر ایک طرف رکھ میں اور ان مسائل پر میری ایک تحریک التوا اٹھا کر دیکھ لیں ، میں نے بروقت حکومت سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا لیکن کاشتکار کی اشک اشوئی نہیں کی گئی اور ملز مالکان فائدے اٹھاتے ہوئے بھاگ گئے اگر حکومت کاشتکار کو اس کی ادائگی نہیں کراسکے گی تو کیا کرے گی جبکہ اس ایوان میں حکومت کی طرف سے درست صورتحال پیش نہیں کی گئی ۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنی ذرعی انڈسٹری کو خود تباہ کررہے ہیں ۔ اب تو کپاس پیدا کرنے والے علاقوں میں بھی شوگر ملیں لگنا شروع ہوگئی ہیں ۔ ان کا کہنا تھجا کہ دستاویزات کے بغیر ایران سے فروٹ درآمد ہورہے ہیں اور میں ثابت کرسکتا ہوں کی ملک دشمنی کی بنیاد پر امپورٹ پالیسی بنائی جاتی ہے ۔ حکومتی رکن مسعود عالم نے بھی حکومت کی توجہ کاشتکار کے مسائل اور ڈاکٹر وسیم اختر کی طرح چولستان کا خصوصی ذکر کیا اور کہا کہ اس علاقے میں مش روم کی ہپیداوار بڑھائی جاسدکتی ہے اور یہاں پیدا ہونے والے آم کی گتھلی سے تیل نکالا جاسکتا ہے لیکن کبھی اس طرف کسی نے توجہ ہی نہیں دی ۔

اپوزیشن رکن صدیق خان نے حکومت کی طرف سے کسان پر عائد کئی ایک ٹیکسوں اور خاص طور پر شرعی ٹیکس و زرعی انکم ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ کیا اور وفاقی ٹیکس کو غیر قانونی قراردیا ۔ ابن کا کہنا تھا کہ کاشتکار کو معاشی طور پر کمزور کیا جارہا ہے ان کا کہنا تھا کہ ٹکیس کیلئے کاشتکار کا آمدنی کا سلیب اسی ہزار روپے مقرر کیا گیا ہے جبکہ باقی شعبوں کیلئے یہ سلیب چار لاکھ روپے ہے جو سرا سر زیادتی اور امتیازی اقدام ہے ۔

اپوزیشن رکان ڈاکٹر نوشین حامد ، اور نبیلہ حاکم علی نے بھی اپنے ساتھی ارکان کے موقف کی تائیدو حمایت کی ، اسی طرح حکومتی ارکان امجد علی جاوید اور ثریا نسیم نے بھی کاشتکاروں کے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا ۔ بدھ کے روز بحث کے اختتام تک ایوان میں صرف آتھ ارکان رہ گئے تھے جس پر وزیر زراعت کی بحث سمیٹنے کی تقریر اور ارکان کے نکات کا جواب موخر کردیا گیا اور اجلاس جمعرات کی صبح دس بجے تک ملتوی کردیا گیا ۔