تھرمیں صورت حال اتنی خراب نہیں ہے جتنی دکھائی جارہی ہے ۔حکومت سندھ کی مکمل توجہ تھر کی جانب مرکوز ہے، سینیٹر تاج حیدر

تھر میں پانی کی کمی نہیں ہے ۔زیر زمین 1.5بلین پانی کا ذخیرہ موجود ہے ۔اس کھارے پانی کو میٹھا کرنے کے لیے 437آر او پلانٹس قائم کررہے ہیں

ہفتہ 13 فروری 2016 22:27

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔13 فروری۔2016ء) وزیراعلیٰ سندھ کی جانب سے قائم کردہ تھر ریلیف کمیٹی کے سربراہ سینیٹر تاج حیدر نے کہا ہے کہ تھرمیں صورت حال اتنی خراب نہیں ہے جتنی دکھائی جارہی ہے ۔حکومت سندھ کی مکمل توجہ تھر کی جانب مرکوز ہے ۔تھر میں پانی کی کمی نہیں ہے ۔زیر زمین 1.5بلین پانی کا ذخیرہ موجود ہے ۔اس کھارے پانی کو میٹھا کرنے کے لیے 437آر او پلانٹس قائم کررہے ہیں اور آئندہ چندماہ میں ان کی تعداد 700تک پہنچادی جائے گی ۔

پانی کی تقسیم اور ذخیرہ کرنے میں کچھ خامیاں ہیں جن کو بتدریج دور کیا جارہا ہے اور تھر میں پانی کی تقسیم کے لیے پائپ لائن کا نظام تشکیل دیا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ ایک چھوٹا آر او پلانٹ سے 20ایکڑ زمین پر کاشت کاری کی جاسکتی ہے اور اگر تمام آر او پلانٹس قائم کریں تو تھر کی ایک سے ڈیڑھ لاکھ زمین کو کاشتکاری کے قابل بنایا جاسکتا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ تھر میں تمام آراو پلانٹس کو سولر نظام میں منتقل کردیا جائے گا اور شمسی توانائی سے ہزار سے1200گاؤں کو بجلی فراہم کی جائے گی ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت 5ارب روپے کی لاگت سے سندھ میڈیکل سپورٹ پروگرام شروع کررہی ہے ،جس سے صحت کے شعبے کے مسائل کو حل کیا جائے گا ۔جبکہ ماں اور بچے میں قوت مدافعت کو بہتر بنانے اور غذائیت کمی کو دور کرنے کے لیے فوڈ نیوٹریشن پروگرام شروع کیا گیا ہے جس سے ان مسائل کو حل کرنے میں مدد ملے گی ۔جبکہ سندھ اینگرو کمپنی کے تعاون سے تھر میں ڈیری فارمنگ کو بڑھانے کے لیے12کلیکشن یونٹس بنائے جارہے ہیں اور اس ڈیری فارمنگ پروگرام سے تھر کے لوگوں کے معاشی مسائل حل ہوں گے ۔

انہوں نے کہا کہ سردی کے موسم میں جانوروں کو چارے کی کمی کا سامنا ہوتا ہے اور بچوں میں نمونیا کی ویکسی نیشن نہ ہونے کی وجہ سے کچھ اموات ہوتی ہیں تاہم اس مسئلے پر بھی حکومت کی توجہ ہے ۔بائیو ایگری کلچرل پروگرام کے تحت آر او پلانٹس کے پانی کی مدد سے چارے کی کاشت شروع کردی گئی ہے جس سے یہ مسائل حل ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ ایل او بی ڈی نظام میں خرابیوں کی وجہ سے سندھ میں پانی کے مسائل پیدا ہوئے ہیں ۔

اس نظام کی خامیوں کو بھی دور کررہے ہیں جبکہ تھر کی دیگر تحصیلوں خصوصاً اچھرو تھر اور اطراف کے علاقوں میں بھی آر او پلانٹس لگائے جائیں گے ۔تاج حیدر نے کہا کہ کراچی میں بیوروکریسی تھر کے منصوبوں میں رکاوٹ ڈالتی ہے جس کے لیے وزیراعلیٰ سندھ سے بات کی ہے یہ مسئلہ بھی جلد حل کرلیا جائے گا ۔تھر کی آبادی 16لاکھ سے زائد ہے جبکہ 75لاکھ سے زائد مویشی ہیں ۔

تھر کے تعلقہ اسپتالوں اورچھوٹی ڈسپنسریوں کو بھی اپ گریڈ کیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ تھر میں ڈاکٹروں کی کمی کے مسائل ہیں ۔پارلیمانی جماعتیں اس حوالے سے تعاون کریں اور جو ڈاکٹر تھر میں نوکری کرنا چاہتا ہے اسے حکومت فوری بھرتی کرے گی اور تھرمیں ڈیوٹی ادا نہ کرنے والے ڈاکٹروں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔مسلم لیگ (فنکشنل) کے رکن سندھ اسمبلی سعید خان نظامی نے کہا ہے کہ تھر کے مسئلے کو حل کرنا حکومت سندھ کی ذمہ داری ہے ۔

اس مسئلے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔مٹھی ،ڈیپلو ،اسلام کوٹ صرف تھر نہیں بلکہ اچھرو ،سانگھڑ سے ملحقہ ریگستانی علاقہ اور دیگر تحصیلیں بھی تھر میں شامل ہیں ۔حکومت سندھ اور میڈیا نے صرف مٹھی پر توجہ دی ہوئی ہے۔مٹھی تھر کا نام نہیں ہے ۔اچھرو تھرمیں 300سے زائد اموات ہوچکی ہیں لیکن وہاں حکومت سندھ کی کوئی توجہ نہیں ہے ۔ایک من گندم دینا اور پانی کی چار بوتلیں تھر کے عوام کو دے دینا ان کے مسائل کا حل نہیں ۔

حکومت سندھ نے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی تھی جس نے تھر کا دورہ کرنا تھا لیکن اس کمیٹی کا نوٹی فکیشن واپس لے لیا گیا ہے ۔تھرمیں کمیشن بنانے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ تھر کے عوام عملی اقدامات چاہتے ہیں ۔صرف تھرمیں ہی کم عمری کی شادیاں نہیں ہوتی ہیں بلکہ سندھ کے دیگر اضلاع میں کم عمری کی شادیاں ہوتی ہیں یہ سندھ کی تہذیب میں شامل ہے ۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے تھر کی خواتین کے حوالے سے الفاظ ادا کیے تھے اس پر ان کو معافی مانگنی چاہیے اور اسمبلی میں تھر کی ماؤں اور بہنوں کی تذلیل نہیں ہونی چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ تھر کے مسئلے پر حکومت سندھ فوری آل پارٹیزکانفرنس بلائے ۔اچھرو تھر اور اطراف کے علاقوں میں بھی ہائی اسکول اور سڑکیں تعمیر کی جائیں ۔تھر کے ہر گھرانے میں ایک فرد کو سرکاری نوکری دی جائے یا کاروبار شروع کرنے کے لیے ان کی مالی مدد کی جائے ۔

وزیراعلیٰ سندھ تھر کے لیے ہنگامی پیکج کا اعلان کریں ۔تمام آر او پلانٹس کو فنکشنل کیا جائے ۔تھر کے لوگوں کو دو نمبر ادویات دی جارہی ہیں جس میں محکمہ صحت کا عملہ ملوث ہے۔ایک جانب صوبائی وزیر صحت کہتے ہیں کہ ہم نے میرٹ کے برخلاف تھر میں لوگوں کو نوکریاں دی ہیں ۔سندھ حکومت نوکریوں میں بندربانٹ کررہی ہے ۔تھر کے لیے صرف زبانی دعوے کیے جارہے ہیں عملی کام کہیں نظر نہیں آرہا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو تھر میں آئندہ چند برسوں میں اموات میں اضافہ ہوجائے گا اور صورت حال حکومت کے بس سے باہر ہوجائے گی ۔انہوں نے کہا کہ تھر کے لوگوں کا گذارا مال مویشی سے ہوتا ہے ۔تھرمیں لائیو اسٹاک کے شعبے میں توجہ دی جائے اور بچوں کی ویکسی نیشن کرائی جائے ۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں بھی صحرا ہے لیکن وہاں تو یہ مسائل پیدا نہیں ہوتے ۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سندھ تھر پیکج کے لیے اضافی فنڈز کے حوالے سے کوئی قانون سازی کرنا چاہتی ہے تو ہم اس حوالے سے تعاون کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ تھر کے مسئلے کو ہرسطح پرا ٹھایا جائے گا ۔انہوں نے کہا کہ تھر وہ علاقہ ہے جہاں نہری پانی دستیاب نہیں ہوتا ۔تھر کا دارومدار صرف برسات پر ہے ۔تھر میں مبتادل نظام سے پانی کی فراہمی کے نظام کوبہتر بنانا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ فنکشنل لیگ اس مسئلے پر سیاست نہیں کررہی ہے ۔ہم تھر کے عوام کے ساتھ ہیں ۔انہوں نے کہا کہ فنڈز حکومت کے پاس ہوتے ہیں اپوزیشن کے پاس نہیں ۔حکومت ہی تھر کے مسئلے کو حل کرسکتی ہے ۔تھر کے مسئلے کے لیے جو تعاون چاہیے ہم کرنے کو تیار ہیں ۔

متعلقہ عنوان :