حکومت آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے اپنے ہوم ورک کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کریگی، آرمی چیف جنرل راحیل شریف کامدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کا فیصلہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے،انہیں حکومت اور ملٹری کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔داعش کا پاکستان میں وجود نہیں ہے ،دہشت گرد تنظیمیں اپنا پروفائل بڑھانے کیلئے داعش کا نام استعمال کرتی ہیں، دہشت گرد تنظیمیں ہمارے سیکورٹی اداروں کے نشانہ پر ہیں۔پٹھانکوٹ واقعے پر دفتر خارجہ کہ طرف سے بھارتی حکام کو خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے دورہ کیلئے درخواست کی جائیگی۔سیف گیمز میں اپنی بیٹی کی شمولیت کیلئے اہم کردار بیٹی کے چہرے ‘ خاندان کے ذمہ داروں نے اداکیا ۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کی ٹیکسلا میں میڈیا سے گفتگو

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ منگل 16 فروری 2016 19:25

حکومت آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے اپنے ہوم ورک کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ ..

ٹیکسلا(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔16فروری۔2016ء) وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار نے چیف آف آرمی کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے کو قبل ازوقت قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع نہ لینے کیلئے جنرل راحیل شریف کا ذاتی فیصلہ ہے،مزید تبصرہ نہیں کرسکتا،جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ میں ابھی10مہینے باقی ہیں انہیں حکومت اور ملٹری کی مکمل سپورٹ حاصل ہے،جب ریٹائرمنٹ کا وقت آئیگا تو حکومت آرمی چیف کی تعیناتی کیلئے اپنے ہوم ورک کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کریگی۔

انہوں نے پاکستان میں داعش کی موجودگی کے حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ داعش کا پاکستان میں وجود نہیں ہے ،دہشت گرد تنظیمیں اپنا پروفائل بڑھانے کیلئے داعش کا نام استعمال کرتی ہیں،تشویش ہے کہ ہم پاکستان میں داعش کے وجود کی بات کر کے دہشت گردوں کا پروفائل کیوں بڑھاتے ہیں،پاکستان میں دہشت گرد تنظیمیں ہمارے سیکورٹی اداروں کے نشانہ پر ہیں افواج پاکستان ،سیکورٹی ایجنسیز،پولیس کی لازوال قربانیوں کے باعث دہشت گرد ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے ٹیکسلا میں ریسکیو1122کی افتتاحی تقریب کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ داعش عرب تنظیم ہے جو مڈل ایسٹ اورشمالی افریقہ تک پھیلی ہوئی ہے وہاں اپنی زندگی موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔پاکستان میں اس کا وجود نہیں ہے جبکہ پاکستان میں مختلف ایجنڈے کی 45سے زیادہ تنظیمیں متحرک ہیں جن میں کچھ تنظیمیں کچھ وقت کیلئے روپوش ہو جاتی ہیں اور کچھ متحرک رہتی ہیں جبکہ ایک وقفے کے بعد ان میں سے کچھ تنظیموں نے داعش کا نام استعمال کر کے فرنچائز کھول رکھی ہے لیکن یہ سب تنظیمیں ہماری سیکورٹی ایجنسیز کے نشانے پر ہیں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ کراچی،ڈسکہ،سیالکوٹ اور پشاور سے پکڑے گئے دہشت گرد وں سے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ داعش کے لوگ ہیں لیکن یہ داعش کے نہیں بلکہ ان دہشت گردوں کا تحریک طالبان پاکستان،سابق حزب اسلامی اور لشکر جھنگوی سے تعلق تھا۔لیکن مجھے تشویش ہے کہ ہمارے لوگ داعش کا پاکستان میں وجود ثابت کرنے کیلئے کیوں بضد ہیں۔ہمیں چاہیے کہ ٹی ٹی پی ،لشکرجھنگوی یا کوئی بھی ہو ان کا نام لینا نہیں بلکہ ان کو ہر جگہ پر نیچا دکھانا ہے۔

دہشت گرد ایک طرف دہشت گردی کرتے ہیں دوسری طرف اپنا پروفائل بڑھانے کیلئے میڈیا کا استعمال کرتے ہیں اگر کہیں پٹاخہ بھی چلاتے ہیں تو فوری ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں داعش کے وجود کی بات کرنے والا کوئی بھی شخص ان دہشت گردوں کا عربی میں نام نکال کے دکھائے یا پھر شمالی افریقہ کا نام نکالے ۔بدقسمتی سے داعش تنظیم جس فرقہ کو استعمال کر رہی ہے اس کا پاکستان میں وجود ہی نہیں ہے۔

اگر دہشت گردی کا نام استعمال کرنا بندکردیا جائے تو آدھی سیاست ختم ہوجائے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہماری ملٹری ایجنسیز،دفتر خارجہ،وزارت داخلہ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ داعش کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں ہے۔چوہدری نثار نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میرا پاؤں جس کی دُم پر آتا ہے انکو بھی علم ہے لیکن حیرانگی ہے کہ پیپلز پارٹی والے ہر چیز کو اپنی طرف کیوں لے جاتے ہیں۔

جبکہ میرا پاؤں صرف کرپشن،غیرقانونی معاملات اور عوام پر زیادتی کرنے میں ملوث لوگوں کی دُم پر ہی آتا ہے۔لیکن اگر غلطی سے کسی کی دم پر پاؤں آگیا تو اٹھا لونگا۔ وزیرداخلہ نے پٹھانکوٹ واقعے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران فاروق قتل کیس کی طرح یہ بھی عدالتی اور قانونی ہے۔پٹھانکوٹ واقعے پربنائی گئی جے آئی ٹی کی پیش رفت جاری ہے،آئندہ چند دنوں تک دفتر خارجہ کہ طرف سے بھارتی حکام کو خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی پٹھانکوٹ کے دورہ کیلئے درخواست کی جائیگی۔

تحقیقاتی ٹیم وہاں لنکس ،سوالات کی نشاندہی کریگی ۔تحقیقات کے بعد ہی قوم اور دنیا کے سامنے حقائق آئینگے جبکہ کیس کا فیصلہ عدالت ہی کریگی ابھی تحقیقاتی مرحلہ جاری ہے۔انہوں نے مولانا عبدالعزیز کیخلاف کاروائی کرنے سے متعلق کہا کہ تعصب کی بنیاد پر کسی کے خلاف کاروائی نہیں کر سکتے۔مولانا نے اگر قانون توڑا تو قانونی کاروائی کی جائیگی۔

سینٹ کے اجلاس میں پوچھونگا کہ مولانا عبدالعزیز پر 31کیسسز تھے جن میں 13کیسسزاغواء،دہشت گردی سمیت انتہائی سنگین نوعیت کے ہیں۔ان آٹھ کیسسز پچھلی حکومت میں ختم کردیئے گئے جبکہ صرف تین کا فیصلہ کروایا گیا اور سزا پینتالیس روپے ہوئی جبکہ سزا پر بالکل اپیل نہیں کی گئی۔انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت میں مولانا رہا ہوکر آتے ہیں اورجمعہ کا خطبہ بھی دیتے ہیں لیکن ہم نے خطبہ دینے سے روکا،مولانا کے بیٹے کو لال مسجد کا خطیب بنایا گیا اور سرکاری وکیل دیا گیا تو وہ ہم نے واپس کروایا۔

انہوں نے سیف گیمز میں اپنی بیٹی کی شمولیت کے سوال پر کہا کہ میری بیٹی بیکن ہاؤس میں پڑھتی ہے اور سکول کی ٹیم میں کھیلتی تھی وہاں پر ٹرائلز ہوئے تو وہ پاکستان ٹیم میں سلیکٹ ہو گئی جبکہ سکول والوں کو پتہ بھی نہیں تھا کہ یہ کس کی بیٹی ہے؟گھر گیا تو پوری فیملی کیس لیکر میرے پاس آئی کہ یہ سیف گیمز کیلئے سلیکٹ ہوگئی ہے تو میرے پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ سیف گیمز انڈیا میں ہیں۔جس پر مجھے قائل کرنے میں کئی ہفتے لگے، سب سے اہم کردار بیٹی کے چہرے اور پھر خاندان کے ذمہ داروں نے ادا کیا ۔