قومی سوچ میں مثبت تبدیلیاں تب ہی رونما ہو سکتی ہیں جب شعور اجاگر کرنے کیلئے جہد کو تیز کریں،مقررین

بلوچ ننگ و ناموس اور اپنی بقاء کی حفاظت کی جدوجہد کر رہے ہیں قومی زبان و ثقافت ، تاریخ و تمدن ہمیں عزیز ہے موجودہ حالات میں مردم شماری ممکن نہیں حکومت ایک حلقے میں انتخابات کرانے سے قاصر ہے تو مردم شماری کیسے کرائی جائے گی مہاجرین کے انخلاء کو فوری طور پر یقینی بنایا جائے ،اجتماعات سے خطاب

منگل 16 فروری 2016 22:45

خاران/احمد وال (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔16 فروری۔2016ء ) قومی سوچ میں مثبت تبدیلیاں تب ہی رونما ہو سکتی ہیں جب شعور اجاگر کرنے کیلئے جہد کو تیز کریں بلوچ ننگ و ناموس اور اپنی بقاء کی حفاظت کی جدوجہد کر رہے ہیں قومی زبان و ثقافت ، تاریخ و تمدن ہمیں عزیز ہے موجودہ حالات میں مردم شماری ممکن نہیں حکومت ایک حلقے میں انتخابات کرانے سے قاصر ہے تو مردم شماری کیسے کرائی جائے گی مہاجرین کے انخلاء کو فوری طور پر یقینی بنایا جائے ان خیالات کا اظہار خاران میں ورکرز کانفرنس اور احمد وال میں بڑے اجتماعات سے پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ ، مرکزی کمیٹی کے ممبران خورشید جمالدینی ، میر بہادر خان مینگل ، اسماعیل پیرکزئی ایڈووکیٹ ، خاران کے ضلعی صدر حاجی غلام حسین بلوچ ، نذیر بلوچ ، سابق وزیر بابو رحیم مینگل ، ثناء جمالدینی ، لیاقت سنگت بلوچ ، باقی بلوچ ، میر جمعہ خان کبدانی نے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر حاجی نصرت اﷲ مینگل ، ندیم بلوچ، غلام دستگیر مینگل ، صدام بلوچ ، حافظ اشرف بلوچ ، حمید ساقی بلوچ ، چیئرمین اسحاق بلوچ ، میر بہرام خان مینگل ، شاہنواز کشانی بھی موجود تھے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم اجتماعی قومی سوچ کے فروغ کو یقینی بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں جب معاشروں میں قومی مفادات ، تاریخ ، تہذیب ، تمدن ، سرزمین کے حفاظت کی جہد کو فروغ دیں گے تو قومی بقاء و سلامتی ، مادر وطن کے حفاظت کی جدوجہد کو پروان چڑھا سکیں گے بلوچ وطن جو بے شمار قدرتی دولت مالا مال ہے اس کی جغرافیائی حیثیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اتحاد و یکجہتی کو فروغ دیتے ہوئے بلوچ بن کر مستقبل کا سوچیں اور اپنے گروہی مفادات کو نظر انداز کر دیں اگر گروہی مفادات کو نظر انداز نہیں کریں گے تو اجتماعی و وسیع تر مفادات کو کیسے ترجیح دیں گے بی این پِی نے ہمیشہ قومی مفادات کی بات کی ہے اسی پاداش میں پارٹی کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے رہنماؤں و کارکنوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا پارٹی کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی اس کے باوجود پارٹی کو ختم نہیں کیا جا سکا کیونکہ پارٹی کے محور بلوچ جہد ہے جمہوری جدوجہد کو پروان چڑھاتے ہوئے پارٹی عوامی طاقت کی شکل اختیار کر چکی ہیں اکسیویں صدی میں بلوچ باشعور ہو چکے ہیں اور اپنے اچھے برے کی تمیز کر سکتے ہیں اگر ماضی کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل اور رہنماؤں و کارکنوں نے مشکلات حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا ماورائے قانون اقدامات کئے گئے مگر عوامی اور جمہور کی طاقت سے تمام مظالم برداشت کئے ہماری جدوجہد حق و صداقت پر مبنی ہے پارٹی نے ہمیشہ عوامی مسائل کے حل کو ترجیح دی صحت ، تعلیم سمیت بنیادی ضروریات اجتماعی عوامی مفادات کی ترجمانی کی یہی ہماری پارٹی کا محور ومقصد رہا ہے قومی مفادات کو اولیت دی ہے مقررین نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان کے جملہ مسائل کو حل کیا جائے ماضی میں بھی طاقت کا سہارا لیا گیا لیکن مسائل کو حل نہیں کیا جا سکا ہمیں افہام و تفہیم کے ذریعے تمام مسائل کو حل کرنا چاہئے تاریخ گواہ ہے کہ اقوام کو مظالم سے ختم نہیں کیا جا سکتا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچوں کے زخمیوں پر نمک پاشی سے گریز کیا جائے موجودہ حالات میں جب بلوچستان کے ایک حلقے میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں بلوچ علاقوں کے لاکھوں لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں 60فیصد بلوچ شناختی کارڈ سے محروم ہیں لاکھوں افغان مہاجرین کی موجودگی میں مردم شماری کیسے کرائی جا سکے گی حکومت دانشمندی کا سہارا لیتے ہوئے تمام معاملات کو حل کر کے مردم شماری کرائے ہم نہ مردم شماری کے مخالف ہیں نہ ترقی کے لیکن موجودہ حالات کو بھی مد نظر رکھا جائے جو بلوچ قوم کے مفادات میں نہیں اس سے بلوچوں میں احساس محرومی اور نفرتوں میں اضافہ ہو گا لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی موجودگی میں بلوچ قوم کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے بلوچوں کی اکثریتی آبادی دیہاتوں ، پہاڑی علاقوں میں آباد ہیں جہاں پر نادرا دفاتر تک نہیں وہ بلوچ شناختی کارڈز سے محروم ہیں آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اجتماعی قومی مفادات کے فروغ کیلئے سب کو یک زبان ہو کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی مرکزی حکومت ، پنجاب ، سندھ اور خیبرپختونخوا حکومت کی مہاجرین کے بارے میں پالیسی واضع ہے بلوچستان حکومت مہاجرین کے حوالے سے نرم گوشہ رکھتی ہے جو بلوچ قوم کے مفادات میں نہیں حکمرانوں مسائل کے حل میں ناکام ہو چکے ہیں اکیسویں صدی میں بلوچستان میں دانش گاہیں ، صحت کی سہولیات سمیت سماجی مسائل کو حل کیا جاتا مگر کچھ نہیں کیا جا رہا ہے بی این پی نے گوادر کے بلوچوں کے مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کی آواز اسلام آباد کے ایوانوں تک پہنچائی تاکہ ان کا حل ممکن ہو سکے مقررین نے کہا کہ بی این پی آج بلوچستان کی سب سے بڑی قومی جماعت بن چکی ہے اور سیسہ پلائی دیوار کی مانند مضبوط ہوتی جا رہی ہے مقررین نے کہا کہ گوادر کے تمام تر اختیارات حکومت بلوچستان کو دیئے جائیں گوادر کے بلوچوں کی زندگیوں میں تبدیلی لانے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں انہیں بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کیلئے اقدامات کئے جائیں اقلیت میں تبدیلی سے بچانے کیلئے قانون سازی کی جائے آل پارٹیز کانفرنس کی کامیابی کے بعد تمام جماعتیں نے جو قراردادیں پیش کی جو منظور کی گئیں ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانا تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے

متعلقہ عنوان :