پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کے لیے نہیں بنا یا گیا ، قرضوں کی وجہ سے ایٹمی پروگرام کو کسی صورت میں بھی رول بیک نہیں کیا جا سکتا ،باتیں کرنے والے ہوش کے ناخن لیں ،اسحاق ڈار

قر ضہ لینے کیلئے ایکٹ میں ترمیم لائی جائے، آئیں ملکر آئندہ 15سال کا میثاق معیشت بنائیں، وزیر خزانہ کی اپوزیشن کو پیشکش پھانسیوں پر عملدرآمد سے جی ایس پی پلس کا درجہ ختم ہونے کاخطرہ ٹل گیا ہے ،سینیٹ کے اجلاس میں سرکاری قرضے و اقتصادی صورتحال پر اراکین کو بریفنگ

بدھ 2 مارچ 2016 20:28

پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کے لیے نہیں بنا یا گیا ، قرضوں ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔02 مارچ۔2016ء) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کے لیے نہیں بنا یا گیا ، قرضوں کی وجہ سے ایٹمی پروگرام کو کسی صورت میں بھی رول بیک نہیں کیا جا سکتا ،باتیں کرنے والے ہوش کے ناخن لیں ،قر ضہ لینے کے لیے ایکٹ میں ترمیم لائی جائے۔وزیر خزانہ نے اپوزیشن کو پیشکش کی ہے کہ آئیں ملکر آئندہ 15سال کا میثاق معیشت بنائیں، پھانسیوں پر عملدرآمد سے جی ایس پی پلس کا درجہ ختم ہونے کاخطرہ ٹل گیا ہے ۔

بدھ کو سینیٹ کے اجلاس میں سرکاری قرضے و اقتصادی صورتحال پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ قرضوں کی وجہ سے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے والے ہوش سے کام لیں ،پاکستان نے ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کے لیے نہیں بنا یا ،حکومت ایٹمی پروگرام کا ہر صورت دفاع کرے گی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مجموعی قرضہ 68.5ارب ڈالر ہے جبکہ سرکاری قرضہ 53.4ارب ڈالر ہے ، 2013میں جب حکومت سنبھالی تو پاکستان کا مجموعی قرضہ 61ارب ڈالر تھا ۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے سات ماہ میں 1593ارب روپے کے محصولات جمع کیے ،رواں مالی سال میں 3ہزار ارب سے زائد کے محصولات جمع کرنے کا ہدف پورا کریں گے ۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال پاکستان کی برآمدات 7ماہ کے دوران 12.5ارب ڈالر رہیں ،رواں مالی سال کی برآمدات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 11فیصد کمی رہی ۔انہوں نے کہا کہ 7ماہ میں بجٹ خسارہ 10.8ارب ڈالر ہے جبکہ 7ماہ میں افراط زر کی شرح 2.4فیصد ہے ۔

اسحاق ڈار نے بتا یا کہ سات ماہ میں 238ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ جاری کر چکے ہیں جبکہ اقتصادی ترقی کی شرح پہلی بار 4فیصد بڑھائی ہے ۔انہوں نے کہا کہ 31دسمبر 2015کو مجموعی قرضے 18ہزار 467ارب روپے تھے ۔انہوں نے بتایا کہ اس سال 24 فیصد سے زائد کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں آٹو موبائل ، سیمنٹ انڈسٹری میں بہتری آئی ، پرائیویٹ سیکٹر کا معیشت میں انتہائی اہم کردار ہوتا ہے انہوں نے بتایاکہ اس وقت زر مبادلہ 20.35 ملین ڈالر ہے دیگر ممالک نے اپنی کرنسی 14 فیصد لوز کی ہم نے اپنی کرنسی 5 فیصد لوز کی ۔

انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف سے 3 سالوں میں 856 ملین ڈالر لئے ہیں جبکہ 4.4 ارب ڈالر واپس بھی کئے گئے ہیں گزشتہ حکومتوں نے جو قرض لیا تھا ہم نے انہیں واپس کیا ہے کوئی قسط ری شیڈول نہیں کرائی کیونکہ اس سے ملک کی ساکھ متاثر ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کے ساتھ تمام ادارے کام کرنے کیلئے تیار ہیں انہوں نے اراکین سے کہا کہ آئیں مل کر 15 سال کیلئے مائیکرو اکنامک چارڈرڈ بنائیں اور قانون میں قرضہ لینے کے ایکٹ میں ترمیم کریں اس کی شرح 64 فیصد پر ہے میری کوشش ہے کہ اس کو18 20 تک 60 فیصد تک لے کر آؤں آئندہ حکومتیں اس کو کم سے کم کر کے 50 فیصد پر لے کر آئیں ۔

انہوں نے کہا کہ دھرنے کے دوران 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو قرضے میں ظاہر کیا گیا اور بتایا کہ فی آدمی پر اتنا قرضہ چڑھ جائیگا یہ باتیں غلط تھیں 46 ارب ڈالر میں سے 35 ارب ڈالر توانائی کے منصوبوں پر خرچ ہو گئے جس میں حکومت پر کوئی قرض نہیں ہے جبکہ 11 ارب ڈالر پبلک سیکٹر میں خرچ ہونگے ۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں جب سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ عالمی دنیا ہمیں 100 بلین ڈالر دے تو اس وقت اخبارات میں آرٹیکل چھپا کہ 100 بلین ڈالر میں ان کا نیوکلیئر پروگرام خرید لیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ ملک کو 100 بلین کیلئے نہیں بنایا تھا 100 ٹریلین بھی دیں تو پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام کوئی نہیں خرید سکتا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک کرنے کے لیے نہیں بنا یا گیا ، قرضوں کی وجہ سے ایٹمی پروگرام کو کسی صورت میں بھی رول بیک نہیں کیا جا سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خاطر ہمیں ایک ہو کر چلنا ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ سخت فنانشل نظم و ضبط ہے جو کہتے ہیں کہ قرضے اتنے بڑھ جائیں کہ ہماری ایٹمی اثاثے چلے جائیں گے اور ان کا کنٹرول کسی اور کے پاس ہو گا وہ خدا کاخوف کریں کچھ حب الوطنی کا مظاہرہ کریں ایسا کہنا ملک کی خدمت نہیں ہے اس ملک کا بہترین مستقبل ہے جو دہشتگردی اور توانائی بحران کے خاتمے سے ہی ممکن ہو گا ٹی ڈی پیز کو باعزت طریقے سے واپس لے کر جانا ہے ۔

ضرب عضب اور ٹی ڈی پیز ہماری پہلی ترجیح ہے ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور تمام فنڈز فراہم کئے جائیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سے جی ایس پی پلس کا درجہ واپس نہیں لیا جا رہا ۔ رواں مالی سال میں برآمدات میں 11 فیصد کمی ہوئی ہے پھانسیوں پر عملدرآمد سے جی ایس پی پلس کا درجہ واپس لینے کا خدشہ تھا لیکن اب یورپی یونین سے بات کے بعد خطرہ ٹل گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس سال تین ہزار ارب سے زائد کا ٹیکس جمع کریں گے ۔