وزیراعلیٰ شہبازشریف کا زراعت کی ترقی اور کسانو ں کی خوشحالی کیلئے 100 ارب روپے کے تاریخی پیکیج کا اعلان

پنجاب کسان کمیشن کے قیام کا بھی اعلان، 100 ارب روپے خالصتاً زراعت کی ترقی پر خرچ ہوں گے‘صوبے کو زراعت کے حوالے سے ترقی دینا اور اناج گھر بنانا ہمارا مشن ہے ، اس مقصد کیلئے ہر طرح کے وسائل حاضر ہیں زراعت کی ترقی کیلئے زرعی پلانرز، حکومت، زرعی تحقیقاتی اداروں اور یونیورسٹیوں کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہے،زرعی تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کی کاشتکاروں کو منتقلی کے بغیر فی ایکڑ پیداوارمیں اضافہ ممکن نہیں،زرعی کانفرنس 2016ء میں سامنے آنے والی تجاویز اور سفارشات کی روشنی میں زرعی پالیسی مرتب کی جائے گی‘وزیراعلیٰ شہبازشریف کا زرعی کانفرنس 2016 کے افتتاحی سیشن سے خطاب

ہفتہ 19 مارچ 2016 19:09

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔19 مارچ۔2016ء) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے زراعت کی ترقی ، فی ایکڑ پیداوار میں اضافے ، کسانوں کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کیلئے 100 ارب روپے کے تاریخی پیکیج اور پنجاب کسان کمیشن کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ 100 ارب روپے کے فنڈ آئندہ 2 برس کے دوران خالصتاً زراعت کے فروغ اور کسانوں کی خوشحالی پر ہی صرف ہوں گے۔

وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے یہ اعلان یہاں مقامی ہوٹل میں پنجاب زرعی کانفرنس 2016 کے افتتاح کے بعد مقامی ہوٹل میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعلیٰ نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زراعت صحیح معنوں میں قومی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ زراعت کا فروغ، کسانوں کی خوشحالی اور فی ایکڑ زرعی پیداوار میں اضافہ ہمارا مشن ہے۔

(جاری ہے)

پنجاب حکومت نے گزشتہ ساڑھے سات برس کے دوران زرعی شعبہ کی بہتری اور کسانو ں کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کیلئے متعدد ٹھوس اقدامات کئے ہیں اور آئندہ بھی زرعی شعبے کی بہتری کیلئے اقدامات کرتے رہیں گے اور آج پنجاب زرعی کانفرنس 2016ء کا انعقاد بھی زراعت کی ترقی کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس کانفرنس میں کاشتکاروں کے نمائندے، زرعی ماہرین اور حکومتی اراکین ورکنگ گروپس میں بھرپور انداز سے شرکت کرکے ٹھوس تجاویز اور سفارشات مرتب کریں، جن کی روشنی میں ٹھوس زرعی پالیسی مرتب کی جائے گی۔

صوبے کو خطے کا زراعت اور غلے کا گھر بنانا اور کسانوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے ہمیں مل کر آگے بڑھنا ہے۔ زرعی کانفرنس ایک روایتی کنونشن نہیں ہے بلکہ یہ ایک سنجیدہ فورم ہے جس نے زراعت کی ترقی اور فروغ کیلئے ٹھوس لائحہ عمل طے کرنا ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے، اس کی زمین زرخیز ہے۔ کسان جفاکش اور محنتی ہیں اور ملک میں زراعت کا بڑا پوٹینشل موجود ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم آج بھی زراعت کے شعبے میں پیچھے ہیں اور اسے ہم صحیح معنوں میں ترقی دینے میں ناکام ہیں۔

کبھی کپاس کی پیداوار میں پاکستان بھارت سے آگے تھا، باسمتی چاول کی مارکیٹ پر صرف پاکستان کی اجارہ داری تھی، پاکستان دنیا کا چوتھا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے، لائیوسٹاک کے حوالے سے شاید پاکستان دسواں بڑا ملک ہے لیکن آج ہم پیچھے جا چکے ہیں۔ پوری دنیا میں درخت لگانے کی صنعت بن چکی ہے جبکہ ہمارے ہاں جنگل ختم ہو رہے ہیں۔ ہمیں اس اہم کانفرنس کے ذریعے ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہے۔

1998ء میں میری حکومت نے جعلی زرعی ادویات کا مکمل خاتمہ کیا لیکن جب 2008 میں دوبارہ اقتدار سنبھالا تو یہ مکروہ دھندہ پھر جاری تھا۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی تسلیم کرتا ہوں کہ پچھلے ساڑھے سات برس میں لائیوسٹاک کے فروغ پر بھرپور توجہ دی گئی لیکن مطلوبہ نتائج نہیں مل سکے۔ کاشتکار تو دن رات محنت کر رہا ہے لیکن فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہیں ہوا۔

زرعی ایکسٹنشن سروس دم توڑ چکی ہے اور ریسرچ ادارے اپنا مطلوبہ کام نہیں کر رہے جس کے باعث کاشتکاروں کو مشورے دینے کا سلسلہ بھی بند ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کے ساتھ ریسرچ و ڈویلپمنٹ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یونیورسٹیوں اور زرعی تحقیقاتی اداروں نے زرعی تحقیق پر بھرپور توجہ نہیں دی۔ زرعی تحقیق کے نتائج اور جدید ٹیکنالوجی کاشتکاروں کو منتقل کئے بغیر فی ایکڑ زرعی پیداوار میں اضافہ ممکن ہی نہیں۔

زرعی منصوبہ سازوں ، حکومت، زرعی تحقیقاتی اداروں اور یونیورسٹیوں کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کسانوں کو درپیش مسائل سے پوری طرح آگاہ ہے اور ان کے معاوضے کو یقینی بنانے کیلئے بھی موثر اقدامات کئے ہیں۔ اربوں روپے کی سبسڈی سے چھوٹے کاشتکار کو ارزاں نرخوں پر سستے ٹریکٹر دیئے گئے ہیں جبکہ کسانوں کی تنظیموں کے ساتھ بھی ان کے مسائل کے حل کیلئے قریبی رابطہ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے گنے کے کاشتکاروں کے مفاد کا تحفظ کیا اور انہیں 180 روپے فی من کے حساب سے گنے کی قیمت کی ادائیگی یقینی بنائی جبکہ ایک صوبے نے سیاست کھیلتے ہوئے گنے کی قیمت 160 روپے کی لیکن میں نے سٹینڈ لیا اور ایک پائی بھی کم نہ کی جس کی بنیادی وجہ کاشتکاروں کے مفادات کا تحفظ تھا۔ 2010ء میں گندم کی قیمت 900 روپے فی من مقرر کی تاکہ کاشتکار کو فائدہ پہنچے اور گندم کے کاشتکارو ں کو ان کی فصل کا معاوضہ یقینی بنانے کیلئے میں صوبے کے کونے کونے گیا۔

اسی طرح دیگر زرعی لوازمات کیلئے پنجاب حکومت اربوں روپے کے وسائل فراہم کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زراعت کی ترقی اور چھوٹے کسانو ں کی خوشحالی کیلئے کم نرخوں پر زرعی لوازمات کی فراہمی بھی ضروری ہے، چھوٹے کاشتکاروں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ بھی کرنا ہوگا کہ وہ پیداوار میں کس طرح اضافہ کر سکیں۔ وزیراعلیٰ نے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کے تحت منصوبوں پر کام کی رفتار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ چین کی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری میں سے 36 ارب ڈالر بجلی کے منصوبوں پر لگائے جا رہے ہیں۔

ساہیوال اور پورٹ قاسم میں کول پاور پلانٹس، بہاولپور میں سولر پاور پلانٹ جبکہ پن بجلی کے منصوبوں پر بھی تیزی سے کام جاری ہے اور مجموعی طور پر3600 ارب روپے کی سرمایہ کاری سے پاکستان بھر میں توانائی کے منصوبوں پر تیزرفتاری سے کام جاری ہے ان میں سے ہزاروں میگا واٹ کے منصوبے 2017-18ء تک مکمل ہو جائیں گے اور بجلی نہ صرف سستی دستیاب ہو گی بلکہ وافر ہو گی ۔

کاشتکاروں کی زمینوں کو سرسبز شاداب بنانے کیلئے بجلی ضروری ہے اور سستی بجلی ملنے سے کاشتکاروں کو بھی بے پناہ فائدہ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ بجلی کے منصوبوں میں شفافیت کا سوال کس طرح اٹھ سکتا ہے کیونکہ یہ سوفیصد چینی سرمایہ کاری ہے اور منصوبوں کا ٹیرف نیپرا دے رہا ہے -تمام منصوبے انتہائی شفاف انداز میں لگائے جا رہے ہیں - انہوں نے کہا کہ چین کے صدر کی آمد کے فورا بعد سی پیک کے تحت منصوبوں پر کام شروع ہوا اور پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اربوں ڈالر کے منصوبوں پر کام تیزی سے جاری ہے-آج اﷲ تعالی کے بے پایاں فضل و کرم سے ملک میں گیس کی کوئی کمی نہیں اور ہر ایک کو گیس مل رہی ہے - پنجاب میں 3600 میگا واٹ کے گیس پاور پلانٹس پر بھی تیزی سے کام جاری ہے اور یہ منصوبے مکمل ہونے سے بجلی کا یونٹ تقریبا 7 روپے میں صارفین کو ملے گاجبکہ اس وقت بجلی کے فی یونٹ کی قیمت تقریبا 13 سے 14 روپے ہے -یہ منصوبے 2017 ء میں سنگل سائیکل ٹربائن پر بجلی کی پیداوار شروع کر دیں گے - پاکستان میں شفافیت ، امانت ، دیانت اور محنت سے جس طرح ان منصوبوں کو آگے بڑھایا جا رہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے - انہوں نے کہا کہ پنجاب ایگریکلچر کموڈیٹی کمیشن کے قیام کی تجویز خوش آئند ہے اور اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کی فلاح و بہبود اور خوشحالی ہمارا ایجنڈا ہے - میری صدارت میں بننے والے کسان کمیشن کا ہر دو یا تین ماہ کے بعد اجلاس منعقد ہوگا جس میں کاشتکاروں کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اپریل کے پہلے ہفتے میں مل بیٹھ کر زرعی کانفرنس کی تجاویز اور سفارشات کی روشنی میں لائحہ عمل طے کریں گے۔پنجاب کے بجٹ میں کسانوں کی خوشحالی اور زرعی شعبے کی ترقی کے لئے ایک سو ارب روپے رکھے جائیں گے لیکن ان اربوں روپے کا حقیقی فائدہ کاشتکاروں اور زرعی شعبے کو پہنچنا چاہیے اور کاشتکار خوشحال ہونا چاہیے- زراعت کے فروغ کیلئے 100 ارب روپے کے تاریخی پیکیج کے مثبت نتائج سامنے آنے چاہئیں، میں اس پیکیج کی ایک ایک پائی کی ادائیگی یقینی بناؤں گا اور اس کا مکمل حساب بھی لوں گا۔

انہوں نے کہا کہ صوبے کو زراعت کے حوالے سے ترقی دینا اور اناج گھر بنانا ہمارا مشن ہے جس کی تکمیل کیلئے ہر طرح کے وسائل حاضر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں پنجاب کا پورا بجٹ زراعت کی ترقی پر لگانے کے لئے تیار ہوں لیکن اس ضمن میں زراعت کی ترقی کے حوالے سے ٹھوس اقدامات کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہے کیونکہ آپ کو فائدہ پہنچے گا تو قوم کو فائدہ پہنچے گا اور انشاء اﷲ ہم زراعت کو واپس اصل جگہ پرلائیں گے-100 ارب روپے خالصتا زراعت کی ترقی کے لئے ہوں گے جبکہ اس کے علاوہ پکیاں سڑکاں سوکھے پینڈے کے تحت دیہی علاقوں کی سڑکوں کی تعمیر و بحالی کا کام جاری ہے جس پر 150 ارب روپے خرچ کئے جائیں گے - اسی طرح دیہی علاقوں میں اربوں روپے کی لاگت سے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبے پر بھی کام ہو رہا ہے -انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر صوبے کو خطے کا غلے اور زراعت کا گھر بنائیں گے-صوبائی وزیر زراعت ڈاکٹر فرخ جاوید نے زرعی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے کہا کہ عالمی کساد بازاری اور موجودہ بدلتے ہوئے موسمی حالات کے تناظر میں کسانوں کیلئے نئی پالیسیاں بنانا ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف کسان دوست ہیں اور انہیں ہمیشہ کسانوں سے پیار کرتے ہی دیکھا ہے۔ انہوں نے دہائیوں پرانے ظلم و ستم میں جکڑے نظام اور پٹوار کلچر کا خاتمہ کرکے کسانوں کو ریلیف دیا ہے۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اﷲ نے کہا کہ کسان کو خودمختار بنانے اور زراعت کے فروغ کیلئے فیصلے کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

حکومت کو دھرنوں، ریلیوں اور گھیراؤ جلاؤ میں نہ الجھایا جائے۔ صوبے کے غیور کسانوں نے گھیراؤ جلاؤ اور منفی پراپیگنڈا کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا جس سے وہ اپنے مذموم مقاصد میں ناکام ہوئے۔ ممبر قومی اسمبلی اویس لغاری اور ایم پی اے کرم الہٰی بندیال نے زرعی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے زراعت اور کاشتکاروں کو درپیش مسائل پر روشنی ڈالی۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اﷲ نے وزیراعلیٰ شہبازشریف کو کانفرنس کا یادگاری سووینئر پیش کیا۔

صوبائی وزراء رانا ثناء اﷲ خان، ڈاکٹر فرخ جاوید، اقبال چنڑ، چوہدری شیر علی، ملک ندیم کامران، ذکیہ شاہنواز ، عائشہ غوث پاشا ،اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، چیف سیکرٹری، پنجاب کے اعلیٰ حکام، صوبے بھر سے کاشتکاروں اور کاشتکار تنظیموں کے نمائندوں، زرعی سائنسدانوں اور ماہرین نے بڑی تعداد میں کانفرنس میں شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :