پاکستان میں آلو کی کھپت میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا

بدھ 6 اپریل 2016 13:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔06 اپریل۔2016ء) پاکستان میں گذشتہ دہائی سے آلو کی کھپت میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے ، ننانویں فیصد کا شتکار آلو کا غیر مستند بیج استعمال کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار جرمن ماہر تحفظ خوراک ”رموکی وسٹمین“ نے ادارہ برائے پائیدار ترقی اور ایمبیسی آف نیدرلینڈ کے اشتراک سے” تحفظ خوراک اور بہتر طرزِ زراعت“ کے موضوع پر ایس ڈی پی آئی میں لیکچر کے دوران کیا۔

انہوں نے کہا کہ کاشت کاراو ر اس سے وابستہ افراد ہر سطح پر اعلیٰ تکنیک کے استعمال سے پیداوارکو محفوظ کرکے معاشی فوائد میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔ اس موقع پر ایمبیسڈر آف نیدر لینڈ کی معاون سربراہ ریناٹے پورز بھی موجود تھی۔جرمن ماہر تحفظ خوراک نے کہا کہ منڈی کا انحصار اس متعلقہ افراد اور کاشت پر ہوتاہے۔

(جاری ہے)

بہترین طرز زراعت طلب اور رسد میں خوشگوار توازن پیدا کر سکتی ہے۔

بیج کی بہتر اقسام کا انتخاب، کھاد کی کم مقدار جڑی بوٹیوں کی تلفی،بیماریوں اور دوسرے حملوں سے تحفظ اچھی زراعت کے بہترین اصول ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرم کش ادویات کا محدود استعمال اور بہتر کاشت کا نظام مروج کرنا چاہئے۔ وسٹمین نے کہا نائٹروجن کھاد کا مناسب استعمال بہتر کاشت کاری میں جدید تکنیک کے مترادف ہے۔ جڑی بوٹیوں کو تلف کرنے والی مہلک خوراک سے گھاس پھوس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

فیصلہ سازی میں مددگار نظام بھی کامیابی کا اچھا ہتھیار ہے۔ درجہ حرارت کی پیمائش ، بارش کی نمی، تابکاری اور آب و ہوا کی خصوصیات اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ آئندہ عمل کے تواتر کے لئے ضروری ہے فصل کی کٹائی کے بعد گوداموں کی سہولت کو بھی مدِ نظر رکھا جائے۔ اس موقع پر نیدر لینڈ ایمبیسڈر کی معاون سربراہ ریناٹے پورز نے کہا کہ تحفظ خوراک ایک بڑا چیلنج ہے جو آج دنیا کے سامنے ہے۔

ہر پانچ سیکنڈ کے بعد غزائی قلت کے باعثِ ایک بچہ ہلاک ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اچھی خوراک استعمال کرنے والے افراد بہتر معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ نیدر لینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر تحفظ خوراک پر خصوصی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ جو کہ عالمی سطح خوراک کے بڑے برآمدکنندگان میں سے ایک ہے۔ انہوں نے نیدر لینڈ میں ہونے والی تحفظ خوراک سائنسی تحقیق کو عام کرنا آپ کی سفارتی سرگرمیوں میں شامل ہے یہ لیکچر اس سلسلہ کی کڑی ہے۔

پاکستان جیسے ممالک تحفظ خوراک کو مناسب توجہ اور پائیدار خوراک کے ذریعے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ عالمی ادارے کے اعدا د و شمار کے مطابق پاکستان کی پنتالیس فیصد آبادی کا روزگار شعبہ زراعت سے وابستہ ہے۔ آلو پیداواری حجم کے اعتبار سے چوتھی بڑی فصل ہے جو کہ صارفین اور کاشتکاروں میں مزید اہمیت کا باعث ہے جو کہ نقد آو ر فصل ہے۔ تحقیق سے سامنے آیا کہ مستند بیج کے استعمال سے آلو کی پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔

اس موضوع پر ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہ کہ تحفظ خوراک کو یقینی بنانے کے لئے پاکستان میں پالیسی سازوں اور ان پر عمل درآمد کرنے والے حکام کی استبداد کار میں اضافہ کیا جائے تاکہ تحقیق ، تجزیہ اور ڈیٹا کا بہتر استعمال ہو سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زرعی تحقیقی اداروں کو سیاست سے پاک پالیسی سازی میں فعال کردار سے اچھے نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا پاکستان کے مختلف علاقوں اور منڈیوں کی ضروریات کے پیش نظر تحقیق کی بنیاد پر کاشت کا فیصلہ کیاجائے۔ کاشتکاروں کومناسب اور ہر ممکن سہولیات فراہم کی جائیں۔ فیصلوں کی انشورنس کے عمل کو یقینی بنایا جائے۔ ڈاکٹر عابد سلہری نے مزید کہا کہ پاکستان کے کاشتکاروں کو ترقی یافتہ ممالک کے کاشتکاروں کے برابر سہولیات فراہم کی جائیں۔

ڈبلیو ٹی او کے تحت زراعت پر معاہدہ پاکستان کے لئے کوئی نئی راہ پیدا نہیں کر سکا اور نہ ہی ہماری زراعت کوکچھ خا ص فائدہ ہوا۔ اس سے ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ زرعی معیشت کے لئے جامعہ پالیسی مرتب کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔ تاکہ چھوٹے کاشتکاروں کی مشکلات کو کم کر کے تحفظ خوراک کو یقینی بنایا جا سکے ۔ انہو ں نے مزید کہا پائیدار ترقی کے بین الاقوامی اہداف کا حصول بہترین اصلاحات اور شفافیت کے ذریعے ممکن ہے ۔

متعلقہ عنوان :