اسلامی فوجی اتحاد میں 39ممالک شامل ہیں،شاہ سلمان

دہشت گردی کے خلاف متحدہ ہوناہوگا،فلسطین،لیبیا،یمن،شام کے مسائل کا حل چاہتے ہیں،اوآئی سی اجلاس سے خطاب

جمعرات 14 اپریل 2016 21:20

اسلامی فوجی اتحاد میں 39ممالک شامل ہیں،شاہ سلمان

الریاض(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔14 اپریل۔2016ء) خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہاہے کہ ہم امت اسلامیہ کے مسائل کا حل نکالنے کا مطالبہ کرتے ہیں جن میں مسئلہ فلسطین کا ایک منصفانہ حل تلاش کرنا سرفہرست ہے۔ یہ حل عرب امن منصوبے اور بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہم جنیوا 1 کے فیصلوں اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کے مطابق شام کے بحران کا خاتمہ چاہتے ہیں اور لیبیا میں سیاسی بحران کے خاتمے کے سلسلے میں موجودہ کوششوں کی سپورٹ چاہتے ہیں۔

میڈیارپورٹس کے مطابق سعودی فرماں روا نے یہ بات جمعرات کے روز ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ دو روزہ اسلامی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔شاہ سلمان نے کہاکہ یمن کے معاملے میں ہم اقوام متحدہ کی ان کوششوں کی حمایت کرتے ہیں جو وہ سلامتی کونسل کی قرارداد 2216 پر عمل درامد کرتے ہوئے کویت میں آئندہ منعقدہ مشاورت کو کامیاب بنانے کے لیے کررہی ہے۔

(جاری ہے)

سعودی فرماں روا نے کہا کہ آج درحقیقت ہمیں اس بات کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کہ ہم دہشت گردی کی آفت کے خلاف لڑنے کے لیے ساتھ کھڑے ہوجائیں اور نوجوان نسل کو اس شدید حملے سے بچائیں جس کی زد میں وہ ہے۔ اس حملے کا مقصد نوجوان نسل کو دین کے سیدھے راستے سے ہٹا کر ان کی راہ پر ڈال دینا ہے جو زمین پر دین کے نام پر فساد پھیلا رہے ہیں جب کہ دین نے ایسے لوگوں سے اپنی برائت کا اظہار کرتا ہے۔

خادم حرمین نے کہا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف اسلامی فوجی اتحاد تشکیل دے کر اس جانب ایک سنجیدہ قدم اٹھا لیا ہے۔ اتحاد میں 39 ممالک شامل ہیں اور اس کا مقصد فکری، ذرائع ابلاغ کی، مالی اور عسکری سطح پر منصوبوں کے ذریعے تمام تر کوششوں میں تعاون اور ان کو مربوط بنانا ہے۔شاہ سلمان نے کہاکہ آج ہمارے عالم اسلام کو درپیش تنازعوں اور بحرانوں کے ضمن میں متعدد اسلامی ملکوں کو اپنے امور میں مداخلت، فتنوں کے بھڑکائے جانے، تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ، فرقہ وارانہ اور مسلک پرستانہ نعروں کی گونج کا سامنا ہے۔

ہمارے امن و استحکام کو متزلزل کرنے کے لیے مسلح ملیشیاؤں کو استعمال کیا جارہا ہے تاکہ رسوخ اور غلبہ پایا جاسکے۔ یہ تمام چیزیں ہم سے ایک سنجیدہ رویے کا مطالبہ کرتی ہیں تاکہ ان مداخلتوں کو روکا جاسکے اور عالم اسلام کے امن اور سلامتی کو برقرار رکھا جاسکے۔

متعلقہ عنوان :