چین کی قیادت نے دوستی نبھاتے ہوئے پراپیگنڈے کے باوجود میٹروٹرین کیلئے 33ارب روپے کی پہلی قسط ہمیں دے دی ہے، وزیراعلیٰ کا پنجاب اسمبلی میں خطاب

بدھ 18 مئی 2016 21:09

چین کی قیادت نے دوستی نبھاتے ہوئے پراپیگنڈے کے باوجود میٹروٹرین کیلئے ..

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔18 مئی۔2016ء) وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ لوٹ مار ،کرپشن اور سیاسی بنیادوں پر قرضے معاف کرانے والوں نے ملک کو تباہ کردیا ہے ۔ قومی دولت لوٹنے والوں کے شفاف ،بلاامتیازاوربے لاگ کڑے احتساب کا وقت آگیا ہے ۔قوم فیصلہ کرچکی ہے کہ قومی وسائل پر ہاتھ صاف کرنے والوں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لی جائے اور احتساب کا ایک ایسا نظام بنایا جائے کہ آئندہ کوئی مائی کا لال غریبوں کی محنت سے کمائی ہوئی دولت کو لوٹنے کی جرأت نہ کرسکے اور زمینوں پر قبضے نہ کرسکے، ان سب کا احتساب ضروری ہے۔

پانامہ لیکس نے پورے ملک میں ہلچل پیدا کررکھی ہے ۔میڈیا اور ایوانوں میں دن رات اس بات گفتگو ہورہی ہے ۔وزیراعظم محمد نوازشریف نے اس حوالے سے ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ پانامہ لیکس میں ان کا کہیں دور دور تک ذکر نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے سپریم کورٹ کو کمیشن کے قیام کیلئے خط بھی لکھا اورکہا کہ اگر ان کے بیٹوں کا پانامہ لیکس میں ذکر موجود ہے تو وہ خود کمیشن کے سامنے ثبوت اورشواہد رکھیں گے۔

اس سے بڑھ کر نیک نیتی کا کوئی اور ثبوت ہونہیں سکتا۔ٹی او آرز کے حوالے سے اپوزیشن نے مزید سوالات اٹھائے جس پر وزیراعظم نے کہاکہ اپوزیشن کے رہنماوٴں سے اس حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔بدقسمتی سے اپوزیشن کے ٹی او آر ز میں قرضوں کی معافی،کمیشن،کک بیکس اور کرپشن کا دور دور تک ذکرنہ تھا ۔ان کے ٹی او آرز دیکھ کرایسا لگتا تھا کہ یہ کرپشن کے نہیں بلکہ فرد واحد کے خلاف ہیں۔

وزیراعظم نے ایوان میں دوبارہ اپنا مقدمہ پیش کیااورحقائق بیان کیے۔ایوان میں موجود معزز اراکین اورپوری قوم نے ان کے خطاب کو سنا اور وہی جج ہوں گے ۔قوم پانامہ لیکس کے حوالے سے فرق جاننا چاہتی ہے ۔ماضی میں کرپشن ، لوٹ مار، کمیشن اور قرضوں کی معافی نے ملک کو کھوکھلاکردیا ۔قوم اب اس کا خاتمہ چاہتی ہے اور اس کا فیصلہ کرچکی ہے ۔صاف ،شفاف اور بے لاگ احتساب کیلئے قوم متحدہے ۔

ہمیں وقت ضائع کیے بغیر سنجیدگی سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اورایسا نظام وضح کرلیا جائے کہ آئندہ کوئی خائن ہماری منزل کو خراب نہ کرسکے۔ قوم کو علم ہے کہ امانت اور دیانتداری کے ساتھ کون ان کی خدمت کر رہا ہے اور ماضی میں کرپشن اور لوٹ مارکس نے کی ہے۔ 69 برس میں پاکستان کو کہاں لا کھڑا کیا گیا ہے، اس سے قائد اور اقبال کی روحیں تڑپتی ہوں گی۔

ماضی میں سوئس بینکوں میں پڑے اربوں ڈالر، این آئی سی ایل سکینڈل اور قومی دولت کی لوٹ مار کی ہوشربا داستانوں کے بارے میں بھی قوم جاننا چاہتی ہے اور ان کا بھی حساب ہونا چاہیئے کیونکہ یہ احتساب کا وقت ہے۔ وزیراعلیٰ محمد شہبازشریف نے آج پنجاب اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی قیادت میں ملک کے اندھیرے دور کرنے کیلئے بھر پور کاوشیں کی جارہی ہے ۔

توانائی بحران نے زراعت ،تعلیم ،صحت اور زندگی کے تمام شعبوں کو بری طرح متاثرکر رکھا ہے۔شدید گرمی اور45ڈگری درجہ حرات کے باوجود لوگ اگر سڑکوں پر نہیں ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ انہیں اعتماد ہے کہ موجودہ حکومت توانائی بحران کے خاتمے کیلئے مخلصانہ کاوشیں کررہی ہے اورانشاء اللہ آئندہ دو سالوں میں ملک سے اندھیرے چھٹ جائیں گے ۔چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کے تحت سندھ ،کے پی کے ،بلوچستان،پنجاب سمیت پاکستان بھر میں توانائی کے منصوبوں پر تیزی سے کا م جاری ہے ۔

چین کے 46ارب ڈالر کے سرمایہ کاری پیکیج کے تحت 34ارب روپے توانائی کے منصوبوں پر خرچ کیے جارہے ہیں جبکہ باقی انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر لگائے جارہے ہیں ۔ہمارے سیاسی مخالفین یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ چین سے مہنگے قرضے لیے گئے ہیں ۔چین کے عظیم اقتصادی پیکیج کے بار ے میں ان عناصر کی جانب سے مسلسل جھوٹ بول کر قوم کو گمراہ کیا جاتارہا ۔اس پیکیج کو ملمع کاری اور افسانہ بھی قراردیا گیا۔

میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ سی پیک کے تحت پاکستان بھر میں ہزاروں میگاواٹ بجلی کے منصوبوں پر تیزرفتاری سے کام جاری ہے ۔ساہیوال میں1.8ارب ڈالرکی لاگت سے 1320میگاواٹ کا منصوبے پر دن رات کام ہورہا ہے ۔آئندہ سال کے آخر میں اس منصوبے سے بجلی کی پیداوار شروع ہوجائے گی۔اسی طرح سی پیک کے تحت بہاولپور میں شمسی توانائی کے کئی سو میگاواٹ کے منصوبوں پر کام جاری ہے جبکہ شمسی توانائی کے منصوبے کی تکمیل سے نیشنل گرڈ کو بجلی بھی مہیا کی جارہی ہے ۔

دوسا ل قبل یہ علاقہ صحرا تھا اور یہاں کچھ بھی نہ تھا اور انشا ء اللہ 300میگاواٹ شمسی توانائی کا منصوبہ اسی سال مکمل ہوگا۔سندھ میں پورٹ قاسم پر 1320میگاواٹ کا کول پاور پلانٹ اگلے سال اختتام پر مکمل ہوجائے گا۔توانائی کے منصوبے ،گوادر پورٹ،قومی شاہراہوں کی تعمیرکیا یہ سب جھوٹ ہے۔ ہرگز نہیں بلکہ یہ چین کے قرضے نہیں بلکہ خالصتاً سرمایہ کاری ہے ۔

میں ایوان کی خدمت میں سوال رکھتا ہوں کہ وہ کونسا وقت تھا جب پاکستان کے 69سالہ تاریخ میں کسی ملک نے توانائی کے منصوبوں میں34ارب ڈالر تو دور کی بات ہے340ملین ڈالر ہی یہاں لگائے ہوں ۔چین ہمار ادوست ملک ہے وہاں نہ تیل ہے نہ گیس بلکہ اس نے محنت سے معاشی طاقت حاصل کی ہے اور وہ اپنی اسی محنت کی کمائی سے پاکستان میں توانائی کے شعبہ میں 34ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے جو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر سے بھی دگنی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ اشرافیہ کے ہاتھوں ہماری قوم زخم خوردہ ہے ۔ملک کی ابتر صورتحال کے ذمہ دارپنجاب ،سندھ،بلوچستان ،کے پی کے ،آزاد کشمیر،گلگت بلتستان یا پاکستان کے کسی بھی حصے کا وہ شہری نہیں ہیں جو محنت کر کے اپنی روزی کماتا ہے بلکہ اس کی ذمہ دار وہ سیاسی اور فوجی قیادت ہے جو اقتدار میں رہیں ۔ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ پاکستان کو آج کہاں لا کھڑا کیا ہے ۔

پاکستان میں آنے والے اربوں ڈالر کے قرضوں کے باوجود غریب آدمی کی حالت آج بھی نہیں بدلی۔انہوں نے کہا کہ چین کی قیادت میں وزیراعظم محمد نوازشریف کی لیڈر شپ پر بھر پور اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے 46ارب ڈالر کا تاریخ ساز سرمایہ کاری پیکیج دیا ہے ۔تودھرنوں اورمنفی سیاست کرنے والوں نے اس میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی اگر ان عناصر نے دوبارہ ترقی کے سفر کوروکنا چاہا تو قوم چوکوں اورچوراہوں میں ان کا گریبان پکڑے گی۔

انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کا ایسا مخلص دوست ہے جو مصیبت کی ہر گھر میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے ۔اقوام متحدہ سمیت تمام فورموں میں پاکستان کے موقف کی حمایت کی اوراچھے اوربرے حالات میں پاکستان کا ساتھ دیا ۔اگر ہمیں اپنے وسائل سے بجلی کے کارخانے لگانے پڑتے تو خزانہ خالی ہوجاتا۔اللہ تعالیٰ کا شکرہے کہ چین نے مشکل وقت میں پاکستان کا ہاتھ تھاما اور پاکستان پر اعتماد کرتے ہوئے تاریخی سرمایہ کاری کا اعلان کیااوراس مقصد کے لئے محمد نوازشریف کو وسیلہ بنایا۔

اتنے بڑے سرمایہ کاری پیکیج پر ہمیں سجدہ شکر بجا لانا چاہیے۔سی پیک ایسا سرمایہ کاری کا پیکیج ہے جس سے پاکستان کی تقدیر بدلے گی۔معاشی طورپر پاکستان مضبوط ہوگا اورہمارے مخالفین چاہے وہ ہندوستان ہویا کوئی اوراسے پاکستان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھی جرأت نہیں ہوگی۔قوم میں مایوسی اورناامیدی پھیلانے والو ں کو خدا کا خوف کرنا چاہیے اور بے بنیاد باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان اور پنجاب حکومت صوبے میں بھکی،حویلی بہادر شاہ اور بلوکی میں3600میگاواٹ کے تین گیس کی بنیاد پر بجلی کے کارخانے لگارہی ہے۔ماضی میں گیس کی بنیاد پر لگنے والے بجلی کے منصوبوں کے حوالے سے نیپرا کا ریٹ آٹھ لاکھ ڈالرسے 10 لاکھ ڈالر فی میگاواٹ رہا ہے جبکہ ہم اسی نوعیت کے کارخانے 4لاکھ60ہزار ڈالرفی میگاواٹ کے حساب سے لگا رہے ہیں ۔

ان تین منصوبوں میں قوم کے 112ارب روپے بچائے گئے ہیں ،یہ کوئی رام کہانی نہیں بلکہ حقیقت ہے اور اگر اس میں قیامت تک کوئی غلط بات ثابت ہوجائے تو مجھے قبر سے نکال کر الٹا لٹکادینا۔وزیراعلیٰ نے اورنج لائن میٹروٹرین کے منصوبے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ شفافیت،فنانشل اورہر لحاظ سے پاکستان کی تاریخ کا انوکھا اورمنفرد منصوبہ ہے ۔پورا ایوان اس پر بحث کرسکتا ہے اور میں اس منصوبے کے بارے میں حقائق ایوان کے سامنے رکھ رہا ہوں۔

دنیا بھر میں گورنمنٹ ٹوگورنمنٹ معاہدوں میں ٹینڈرنگ نہیں ہوتی ۔ملک کی 69سالہ تاریخ کا پہلا موقع تھا کہ ہم نے جی ٹو جی معاہدے میں بھی ٹینڈرنگ کا عمل مکمل کیا ۔میں نے چینی حکام سے ٹینڈرنگ کے بارے میں بات چیت کی اورانہیں خط بھی لکھا۔چینی حکومت نے ٹینڈرنگ کے عمل پر رضا مندی ظاہر کی جس پر چینی حکام کا شکرگزار ہوں ۔ٹینڈرنگ کے عمل میں سب سے کم بولی دینے والی چینی کمپنی نے 2.12ارب ڈالرکی بولی دی۔

ہم نے اس کمپنی سے بات چیت کر کے اس کی قیمت 2.12ارب ڈالر سے کم کرواکر 1.47ارب ڈالر تک لائے اور قوم کے60ارب روپے بچائے۔ملک کی تاریخ میں منصوبے کا سول ورکس بھی چینی کمپنی نے پنجاب حکومت کو دیا اور ہم 55ارب روپے کے سول ورکس کی ٹینڈرنگ کو 49ارب روپے تک لائے اورسول ورکس میں بھی قوم کے 6ارب روپے بچائے، اس طرح اس منصوبے میں 70 ارب روپے کی بچت کی گئی ۔

میں نے اورنج لائن میٹروٹرین پراجیکٹ کے تمام حقائق ایوان کے سامنے رکھ دےئے ہیں اوراس میں اگر کوئی غلط بات ہے تو قیامت تک ثبوت لے آئیں،ہم اس کے ذمہ دار ہوں گے۔منصوبے کے مخالفین بے شک ہماری اس کاوش پر شادیانے نہ بجائیں لیکن اتنا تو ضرور کہہ دیں کہ یہ اچھا کام ہوا ہے ۔اگر انہیں یہ بھی منظور نہیں تو کم ازکم خاموش رہیں،قوم کو غلط بیانی سے نہ ورغلائیں۔حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کرنا کہاں کا انصاف ہے ۔انہوں نے کہا کہ منصوبے کے بارے میں بلاجواز احتجاج کیا گیااور نام نہاد سول سوسائٹی کی جانب سے واویلا کیاگیاکہ منصوبے سے تاریخی مقامات گرائے جارہے ہیں ۔انہوں نے غلط بیانی کی کہ