پاکستان نے 1983-84ء ہی ایٹم بم کا دھماکہ کرلینا تھا لیکن اس وقت افغانستان میں جنگ چل رہی تھی ،جنرل ضیاء الحق نے اسے ملتوی کردیا، ڈاکٹر قدید خان

ہفتہ 28 مئی 2016 22:26

پاکستان نے 1983-84ء ہی ایٹم بم کا دھماکہ کرلینا تھا لیکن اس وقت افغانستان ..

کویت سٹی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔28 مئی۔2016ء) پاکستان نے 1983-84ء ہی ایٹم بم کا دھماکہ کرلینا تھا لیکن اس وقت افغانستان میں جنگ چل رہی تھی لیکن جنرل ضیاء الحق نے اسے ملتوی کردیا ۔ان خیالات کا اظہار محسن پاکستان اورخالق ایٹمی بم ڈاکٹر عبدالقدید خان نے پاکستان عوامی سوسائٹی کے زیر اہتمام یوم دفاع پاکستان (یوم تکبیر) کے موقعہ پرٹیلیفونک خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہاکہ جب ہندوستان نے 1973ء میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مجھے ہالینڈسے بلایا اور مجھے کہاکہ ہمیں ہر صورت میں ایٹمی بم بنانا ہے جس پر میں نے کہاکہ کوئی بات نہیں ہم ایٹمی بم بنادیں گے اورہم نے جگہ منتخب کرکے ایٹمی ٹیکنالوجی کا آغاز کیا لیکن بعض حالات کی وجہ سے یہ منڈیر نہ چڑھ سکااورمیں بھی واپس چلاگیا لیکن جب جنرل ضیاء الحق حکومت میں تھے ایک بار پھر مجھے بلایا گیا اورایٹمی بم بنانے کا کہااورنے پاکستان کی خاطر اپنی کشتیاں جلا کر اپنے بچوں کے ہمراہ آیا تو دیکھا جو میں کام شروع کیا تھا وہ ا سی طرح کا پڑا ہواہے اورکچھ اس جگہ پر گپیں لگا کر وقت کا ضیاع کررہے تھے جس پر مجھے بہت دکھ ہوا ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ جب ضیاء الحق نے مجھے کام سونپا تو میں چند سالوں میں اسے پایا تکمیل تک پہنچادیا اور نگرانی اپنے پاس رکھی لیکن کچھ بیور وکریٹ بھی موجود تھے مجھے معلوم تھا کہ یہ بیوروکریٹ کچھ کریں گے جسکا مجھے خدشہ تھا ۔ڈاکٹر قدیر خان نے کہاکہ یہ کام ہوتارہا لیکن انتہائی سستی تھی جس کا مجھے بہت دکھ ہوتا لیکن میں نے کام جاری رکھا اورمیں نے مکمل کرکے ضیاء الحق کی میز پررپورٹ رکھ اورکہاکہ آپ جب کہیں گے ایٹمی بم کا دھماکہ کردیں گے جس پر جنرل ضیاء الحق بہت حیران ہوئے اور افغان وار کی نظر ہمارا منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا ۔

لیکن جب ہندوستان نے1998ء میں دوبارہ ایٹمی دھماکہ کیا تو ہم نے بھی اعلان کردیا کہ ہم بھی اپنے ایٹمی دھماکہ کریں گے پوری دنیا میں ہلچل پیدا ہوگی اورامریکہ یورپ سمیت دنیا بیشتر ممالک ہمیں ایٹمی دھماکہ نہ کرنے پر زور ہی نہیں بلکہ دھمکیاں بھی ملنے لگی اور ڈالر کا لالچ بھی دیا گیا لیکن ہمیں پاکستانی عوام کا بہت پریشر تھا ہم اسی شش وپنج میں مبتلا تھے سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے لیکن سب نے اتفاق کیا پاکستان کو بچانا تو دھماکہ کرنا ہی پڑے گااگر ہم دھماکہ نہ کرتے ہوئے ہندوستان ہمارے شہروں لاہور ،گوجرانوالہ ،گلگت سکردو تک قابض ہوجاتالیکن ہم نے اللہ تعالی کے فضل وکرم سے 28مئی 1998ء میں دھماکہ کردیا لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہم ایٹمی قوت بننے کے باوجود اس سے استفادہ نہیں کرپائے اگر اس وقت میری تجاویز کو مان لیا ہوتا تو آج ہم لوڈشیڈنگ کے ناسور میں مبتلا نہ ہوتاحکومت نے میری صلاحیتوں کوضائع کردیا حالانکہ میں ایٹمی بم بنانے میں اپنی 15فیصد صلاحیتیں استعمال کرسکا ہو ں ۔

اگر ملک میں آٹومابائل فیکیٹریاں قائم کی جاتی تو آج ہم امریکہ ۔جاپان اوردوسرے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہوتے لیکن کرپٹ سیاست دانوں اوربیوروکریٹ ملک کو قرضوں کی دلدل میں پھنسادیا ۔اگر بیرون ممالک میں بسنے والے پاکستانی زرمبادلہ نہ بھیجیں تو ملک کا دیوالیہ نکل جائے اوورسیز پاکستانیوں نے پاکستان کی معشیت کو سنبھال رکھا ہے ۔

انہوں نے کہاکہ میں نے آج تک حکومت سے کوئی مراعات حاصل نہیں کی اورنہ ہی ایک گز کا پلاٹ نہیں لیا ۔انہوں نے کہاکہ میں تیس سال قبل کویت میں آیا تھا اس وقت بہت گرمی تھی لیکن کویت نے ہمیں جہاں دولت دیا وہی انہوں نے گرمی کا بھی تحفہ دیا ہے آج پاکستان میں 52سینٹی گریڈ درجہ حرارت ہوچکاہے ۔اس موقعہ پر ڈاکٹر ثمر مبارک مند ،عبداللہ گل ،جعفر صمدانی نے بھی خطاب کیا

متعلقہ عنوان :