ڈرون حملہ ہماری قومی سلامتی اور وقار کے منافی ہے ٗہمیں امریکہ سے برابری کی سطح پر بات کر نی چاہیے ٗ اراکین سینیٹ

بھارتی حکومت جو سٹریٹجک معاہدے دوسرے ملکوں سے کر رہی ہے ٗہماری نظر ہونی چاہیے ٗ ملا منصور کو گرفتار کرلیا جاتا تو بہتر ہوتا ٗ ڈرون کی محض مذمت کافی نہیں ٗامریکی سفیر کو ملک بدر کیا جائے ٗ سینیٹر فرحت اﷲ بابر ٗ نہال ہاشمی ٗ مشاہد حسین سید ٗ عثمان کاکڑ ٗاعظم سواتی ٗعبد القیوم ٗ حافظ حمد اﷲ فوجی آپشن سے افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا‘ ملکی خودمختاری اور سالمیت کا دفاع کریں گے ٗ سرتاج عزیز یہ تاثر غلط ہے حکومت ڈرون پر حملے پر خاموش ہے ٗڈرون حملے ہماری ملکی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں ٗ مشیر خارجہ

جمعرات 2 جون 2016 20:22

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔02 جون۔2016ء) اراکین سینٹ نے بلوچستان کے علاقے نوشکی میں امریکی ڈرون حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون حملہ ہماری قومی سلامتی اور وقار کے منافی ہے ٗہمیں امریکہ سے برابری کی سطح پر بات کر نی چاہیے ٗبھارتی حکومت جو سٹریٹجک معاہدے دوسرے ملکوں سے کر رہی ہے ٗہماری نظر ہونی چاہیے ٗ ملا منصور کو گرفتار کرلیا جاتا تو بہتر ہوتا ٗ ڈرون کی محض مذمت کافی نہیں ٗامریکی سفیر کو ملک بدر کیا جائے جبکہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہاہے کہ فوجی آپشن سے افغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا‘ ملکی خودمختاری اور سالمیت کا دفاع کریں گے ٗ یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت ڈرون پر حملے پر خاموش ہے ٗڈرون حملے ہماری ملکی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔

(جاری ہے)

جمعرات کو اجلاس کے دور ان بلوچستان میں ڈرون حملے کے نتیجے میں ملا اختر منصور کی ہلاکت سے پیدا ہونے والی صورتحال کو زیر بحث لانے کی تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ ڈرون حملہ کی شدید مذمت کرتے ہیں ٗمسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ بلوچستان میں ڈرون حملہ ہماری قومی سلامتی اور وقار کے منافی ہے، پوری دنیا میں امریکہ کے سامنے جو بھی جرات کا اظہار کرتا ہے اور کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے وہ اس کا نشانہ ہے خواہ وہ کوئی حریت پسند ہو یا سیاستدان۔

ملالہ کا واقعہ ہو یا کوئی اور امریکی شرمندگی کا بھی اظہار نہیں کرتے ٗدنیا میں قانون کی حکمرانی نہیں ہے‘ پینٹاگون کا دل جہاں چاہتا ہے وہ دندناتے پھرتے ہیں۔ جسے چاہتے ہیں دہشتگرد قرار دیتے ہیں اور پابندیاں لگا دیتے ہیں۔ کسی قانون اور ضابطے کو خاطر میں نہیں لاتا۔ امریکہ اور دہشتگردوں میں کیا فرق رہ گیا ہے۔ امریکی پالیسی کی شدید مذمت کرتے ہیں۔

دعا کرتا ہوں کہ ہم پر پابندیاں لگا دی جائیں تاکہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں ٗہمیں امریکہ سے برابری کی بات کرنی چاہیے، ہم امریکہ سے زیادہ عالمی امن کی بات کرتے ہیں، امریکہ جہاں چاہتا ہے امن نہیں دہشت پھیلاتا ہے، ہماری فورسز جہاں جاتی ہیں ٗامن لاتی ہیں ٗامریکہ پہلے اپنے ملک میں اساتذہ اور بچوں کو تحفظ فراہم کرے جہاں حملے ہوتے رہتے ہیں۔

ہمیں اپنی حکومت اور ریاست اور ریاستی اداروں کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے ٗکئی لوگ امریکہ کی چاپلوسیاں کرتے ہیں اور تعریفی اسناد اور سرٹیفکیٹ مانگتے ہیں۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ امریکہ نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ دفتر خارجہ نے بھی امریکی سفیر کو بلا کر دوٹوک بات کی ٗامریکہ ہمارے علاقوں پر حملہ کرے گا تو اسے نتائج کا سامنا کرنا پڑیگا۔

اعظم سواتی نے کہا کہ افغانستان کو مکمل امن فراہم کرنے کیلئے حکومت جس قدر معاونت کر سکے وہ کرنا چاہیے، بھارتی حکومت جو سٹریٹجک معاہدے دوسرے ملکوں سے کر رہی ہے اس پر ہماری نظر ہونی چاہیے۔ جاوید عباسی نے کہا کہ بلوچستان میں ڈرون حملے پر ہر پاکستانی کو تشویش ہے، یہ اقوام متحدہ چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اب حملوں پر محض احتجاج کافی نہیں رہا، ہمیں نئی پالیسی بنانا ہوگی، یہ پالیسی ایبٹ آباد حملے کے بعد ہی بنالینی چاہیے تھی۔

دہشتگردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانی پاکستان کے عوام اور اداروں نے دی ہے، ضرب عضب کے نتیجے میں ملک میں امن آیا ہے۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ ڈرون حملے میں کار جل گئی تاہم پاسپورٹ اور شناختی کارڈ محفوظ رہا جو حیرت انگیز ہے۔ امریکہ اور بھارت میں قربت آئی ہے۔ بھارت افغانستان‘ ایران‘ چاہ بہار کے حوالے سے قریب آئے ہیں سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ 2004ء سے 2016ء تک 423 ڈرون حملے ہوئے جن میں 4 ہزار لوگوں کی جانیں گئی ہیں ٗ ڈرون حملوں میں ایک عسکریت پسند کے پیچھے 10 سویلین کی ہلاکتیں ہوئیں۔

کوئی بین الاقوامی قانون اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ٹرائل کے بغیر کسی کو مارنے کی بین الاقوامی اجازت نہیں دیتا۔ اگر ملا منصور کو گرفتار کرلیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ ڈرون حملہ برداشت نہیں کریں گے ٗسینیٹر کینتھ ولیمز نے کہا کہ بلوچستان میں ڈرون حملہ ہمارے لئے افسوس کا باعث ہے۔ حافظ حمد اﷲ نے کہا کہ ملا اختر منصور کو ڈرون حملے میں شہید کرنے کی جے یو آئی (ف) شدید مذمت کرتی ہے ٗ اگر یہ واقعی ملکی سالمیت اور خودمختاری کی خلاف ورزی ہے تو امریکی سفیر کو ملک بدر کیا جائے ٗ ڈرون کی محض مذمت کافی نہیں۔

ڈرون طیارے کو مار گرایا جائے۔ ملا منصور کی شہادت کے ہمارے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ کیا مذاکرات طالبان اور پاکستان نے سبوتاژ کئے ہیں یا ہم نے، طالبان ملا منصور اختر کی ہدایات پر مذاکرات کر رہے تھے اور اب بھی شاید مذاکرات کیلئے ہی آرہے تھے کہ انہیں نشانہ بنایا گیا ٗاس ایوان میں خارجہ پالیسی پر بات نہیں ہوتی۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ ریاست کی خارجہ پالیسی کہاں بنتی ہے اور اگر پتہ ہے تو ہم نام نہیں لے سکتے۔

یہ کیسا ڈرون ہے کہ گاڑی کے پرخچے اڑے‘ ایسا لگتا ہے کسی نے آگ لگائی ہے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر کی تحریک التواء پر بحث سمیٹتے ہوئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ تاثر کہ ڈرون حملوں پر خاموشی رہی غلط ہے‘ حملے کے اگلے ہی روز وزارت خارجہ نے مشاورت کے بعد پریس نوٹ جاری کیا۔ پہلے ہی روز ہم نے صورتحال واضح کردی تھی۔ اگلے روز پھر پریس نوٹ جاری کیا۔

امریکی سفیر کو بلا کر احتجاج کیا اور بتایا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے بعد پھر پریس نوٹ جاری کیا۔ بعد ازاں تفصیلی پریس بریفنگ کی گئی۔ ڈرون حملے ہماری ملکی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ ہماری حکومت نے یہ معاملہ اٹھایا ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں 400 حملے ہوئے ہیں۔ 2013ء میں 48 حملے ہوئے ہیں۔ ہم نے نہایت اعلیٰ سطح پر اقوام متحدہ اور امریکہ کے سامنے یہ معاملہ پوری شدت سے اٹھایا۔

2015ء میں صرف 11 اور رواں سال تین حملے ہوئے‘ ہم نے صرف احتجاج نہیں کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر یہ معاملہ احسن انداز میں اٹھایا۔ جعلی شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ کے حوالے سے وزارت داخلہ کام کر رہی ہے۔ پنجوائی قندھار میں طالبان شوریٰ کا اجلاس ہوا جس میں نیا امیر منتخب کیا گیا۔ پاکستان میں طالبان قیادت کا کوئی اجلاس نہیں ہوا۔ افغان امن مذاکرات کو پہلے بھی سبوتاژ کیا گیا۔

افغان امن عمل کو ملا منصور کی ہلاکت سے ایک بار پھر دھچکا لگا ہے۔ امن مذاکرات کے بغیر استحکام نہیں آسکتا۔ اگر فوجی آپریشن سے امن آنا ہوتا تو آچکا ہوتا۔ ڈرون حملے سے امن عمل کو نقصان پہنچے گا ٗہم امن کیلئے افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔ افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ اور افغان مہاجرین کا مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری عدم مداخلت کی پالیسی بڑی واضح ہے اور ہم اپنی خودمختاری اور سالمیت کا دفاع کریں گے اور اس پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کے لئے کام کرتے رہیں گے۔ افغانوں کے ذریعے ہی افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔