بلوچستان میں 2300سے زائد پرائیویٹ تعلیمی ادارے تعلیم کا 60فیصد بوجھ اٹھائے ہوئے ، حکومت نے اکتوبر2015ء کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرنے کیلئے صوبائی اسمبلی سے راتوں رات ریگولیشن بل 2015پاس کروایا جوپرائیویٹ تعلیمی اداروں کیلئے ڈیٹھ وارنٹ سے کم نہیں ہے،سیمینارسے محمد نواز پندرانی اور دیگر کا خطاب

بدھ 8 جون 2016 14:23

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔08 جون ۔2016ء) آل بلوچستان پروگریسو پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں 2300سے زائد پرائیویٹ تعلیمی ادارے تعلیم کا 60فیصد بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں بلوچستان کی صوبائی حکومت کو ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی مالی مدد کرنی چاہئے تھی مگر حکومت نے اکتوبر2015ء کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو کنٹرول کرنے کیلئے صوبائی اسمبلی سے راتوں رات ریگولیشن بل 2015پاس کروایا جوپرائیویٹ تعلیمی اداروں کیلئے ڈیٹھ وارنٹ سے کم نہیں ہے۔

یہ بات آل بلوچستان پروگریسو پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر محمد نواز پندرانی ،ملک عبدالرشید کاکڑ، امان اللہ مینگل،میجر اکرام اللہ ، محمدابراہیم کھوسہ ، ناصر علی کھوسہ ، سید عطاء محمد شاہ ، عبدالمنان ، حاجی گل محمد ، وسیم اللہ یوسفزئی ، قاری فیصل ، محمدعارف ، کنیز فاطمہ ، شاہدہ بابر اورگ عبدالقدوس نے آل بلوچستان پروگریسو پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے زیراہتمام کوئٹہ پریس کلب میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

(جاری ہے)

مقررین نے کہا کہ 2015ء کے بل کے خلاف پورے صوبے میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے احتجاج کیا جس کے نتیجے میں 27فروری 2016ء کو بوائے سکاؤٹس ہیڈکوارٹر کوئٹہ میں اجلاس منعقد ہوا جس میں وہاں موجودا یسوسی ایشن کے رہنماوں نے تجاویز دیں لیکن چارماہ کا عرصہ گرنے کے باوجود 2016ء کا مسودہ ابھی تک صوبائی اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا۔ ایسوسی ایشن کے رہنماوں نے کہا کہ ترمیمی مسودہ 2016ء میں سب سے بڑی رکاوٹ صوبائی حکومت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں نقل کی لعنت عام ہے قوم کے نوجوان اس لعنت میں مبتلا ہوچکے ہیں بچے پڑھنے کی بجائے نقل کو پاس ہونے کا ذریعہ قرار دے رہے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کے طلبہ دوسرے صوبوں کے طلبہ سے مقابلہ نہیں کرپاتے۔انہوں نے کہا کہ اس خلا کو پر کرنے کیلئے پرائیویٹ تعلیمی ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں ان اداروں کی کوشش رہی ہے کہ طلبہ نقل کی لعنت سے دور رہیں اورانہیں اس میں خاطر خواہ کامیابی نصیب ہوئی ہے لیکن حکومت نے اپنے مقاصد پورے کرنے اور صوبے کے طلبہ میں نقل کو فروغ دینے کیلئے ایک شعبہ بیک(Beac)کے نام سے گزشتہ سال قائم کیا ہے جو کلاس پنجم اور ہشتم کے طلبہ سے امتحان لے گا انہوں نے کہا کہ بیک کے زیراہتمام سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ سے 2015ء اور2016ء میں سرد اور گرم علاقوں میں لیا گیا جس میں نقل کو خوب فروغ دیا گیا انہوں نے کہا کہ ہم اس اقدام کی مذمت کرتے ہیں اورکلاس پنجم اور ہشتم کے امتحان کو مسترد کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ بیک کے زیراہتمام چلنے والے امتحانات کو ختم کیا جائے اس سے نقل کو فروغ مل رہا ہے اوراسکے ساتھ ساتھ بیرونی امداد کو ہضم کرنے کا راستہ بھی ہموار ہورہا ہے بیرونی امداد کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی ضروریات پر خرچ کیا جائے ۔

مقررین نے کہا کہ صوبائی وزیر تعلیم نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ یورپی یونین نے تین ارب چالیس کروڑ روپے سرکاری تعلیمی اداروں کو فروغ دینے کیلئے فراہم کئے ہیں صوبائی محکمہ تعلیم یورپی یونین کی طرف سے فراہم کردہ رقم کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو تنگ اور بند کرنے کیلئے استعمال کر رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے حکومتی اقدامات کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے آج بھی سرکاری تعلیمی ادارے کسمپرسی کی حالت میں ہیں یورپی یونین کی طرف سے فراہم کردہ رقم سرکاری تعلیمی اداروں پر خرچ کی جاتی تو انکے نتائج بھی بہتر ہوتے مگر اس رقم کو ہضم کرنے کی آڑ میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو تنگ کیا جارہا ہے ۔

انہوں نے ڈائریکٹر جنرل نیب سے مطالبہ کیا کہ یورپی یونین کی طرف سے فرہام کردہ رقم کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔