پاناما لیکس سے نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے سبکدوشی بچانے میں ناکامی کی صورت میں خرم دستگیر کو وزیراعظم بنانے پر اصولی ا تفاق

حکمران خاندان میں میں پیدا ہونے والی کشیدگی پر قابو پانے کیلئے اگرچہ اقتدار لاہور سے باہر منتقل کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے تاہم لڑائی ختم نہیں ہوسکی۔ ذرائع اپوزیشن کا فنانس بل میں شامل آف شور کمپنیوں اور ٹرسٹ سے متعلق ٹیکس ترامیم کو ’مریم لاء‘ قراردیکر ماننے سے انکار

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 9 جون 2016 10:39

پاناما لیکس سے نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے سبکدوشی بچانے میں ناکامی ..

لاہور (اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-محمد نوازطاہرسے۔09جون۔2016ء) پاناما لیکس کے بعد پاکستان کے حکمران خاندان میں میں پیدا ہونے والی کشیدگی پر قابو پانے کیلئے اقتدار لاہور سے باہر منتقل کرنے پر اصولی اتفاق کیا گیا ہے تاہم لڑائی ختم نہیں ہوسکی۔ ذرائع کے مطابق پاناما لیکس سے نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے سبکدوشی بچانے میں ناکامی کی صورت میں خرم دستگیر کو وزیراعظم بنانے پر اصولی ا تفاق کیا گیا ہے جس نے اگرچہ حمزہ شہباز اور مریم نواز کی وزیراعظم بننے کی ریس کی جیت کیلئے خاندانی سیاسی تماشائیوں کی تالیوں کی گونج کم کردی ہے تاہم مسلم لیگی خاندان میں اختلافات رکھنے کے باوجود خرم دستگیر کو قبول کرلیا گیا ہے جو واحد سیاسی حل قراردیا گیا ہے۔

ذرائع کے مطابق اس اصولی فیصلے کو گوجرانوالہ سے چند سو کلو میٹر کے فاصلے پر ایوانِ اقتدار کے ضلع میں مزاحمت کاسامنا ہے جو وقت آنے پر شدت اختیار کرسکتا ہے۔

(جاری ہے)

اس کے بعد ہی آف شور کمپنیوں کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی کوششیں شروع کی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق حکمران خاندان کی اندرونی رسہ کشی میں ابھی کمی ہوتی دکھائی نہیں دیتی جبکہ اس ضمن میں بھر پور کوشش جاری ہے اوراس مققصد کیلئے کچھ لوگوں کی’ قربانی ‘ کا تقاضا بھی کیا جارہا ہے۔

ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ خرم دستگیرکابینہ کے ان اراکین میں سے ہیں جو وزیراعظم نوازشریف کے ساتھ لندن گئے اور اس پورے عرصے کے دوران وہ مسلسل لندن میں مقیم ہیں -خرم دستگیرمیاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں اور دونوں جماعتوں کے درمیان جاری بیک ڈور رابطوں میں بھی مکمل طور پر شریک ہیںاور دونوں جماعتوں کے درمیان جاری مذکرات میں بھی خرم دستگیر شریک ہیں -اس کے علاوہ حکومتی جماعت اور شریف خاندان کے بھارت کے ساتھ رابطوں اور کاروباری امور کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی خرم دستگیرکے سپرد ہے-دوسری جانب حزب مخالف کی جماعتوں نے آئندہ مالی سال کے فنانس بل میں شامل آف شور کمپنیوں اور ٹرسٹ سے متعلق ٹیکس ترمیم، جسے حکومتی مخالفیں ’مریم ترمیم‘ یا ’مریم لا‘ کا نام بھی دے رہے ہیں اس کی بھرپور مخالفت اور مزاحمت کرنے کا اعلان کیا ہے۔

حزب مخالف کے منتخب نمائندوں کا کہنا ہے کہ حکومت پاناما لیکس کی تحقیقات سے بچنے کے لیے انکم ٹیکس قوانین میں ترمیم کو فنانس بل میں شامل کر رہی اور اس کے خلاف شدید مزاحمت کی جائے گی۔اپوزیشن کی جانب سے انکم ٹیکس میں ترمیم کو فنانس بل میں شامل کیے جانے کے بعد حکومت نے منگل کو عندیہ دیا تھا کہ وہ اس ترمیم کو واپس لے سکتی ہے تاہم حزب مخالف کے مطابق حکومت اس کو ایوان میں موجود سادہ اکثریت کی وجہ سے منظور کرانے کی کوشش کرے گی۔

پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ کی فنانس کمیٹی کے چیئرمین اور پیپلز پارٹی کے رہنما سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ حکومت نے فنانس بل میں انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترمیم شامل کی ہے۔انھوں نے کہا کہ حکومت یہ کرنا چاہ رہی ہے کہ اگر آپ کی آف شور کمپنی ہے یا ملک سے باہر کوئی ٹرسٹ ہے اور آپ اس سے کوئی منافع یا رقم حاصل نہیں کر رہے تو اس صورت میں اسے ڈکلیئر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سلیم مانڈوی والا نے مزید کہا کہ جیسا کہ وزیراعظم کے خاندان کے بیرون ملک اثاثے ہیں، تو ان کو تحفظ دینے کے لیے حکومت نے اس ترمیم کو فنانس بل میں شامل کیا ہے۔اور حکومت کی قومی اسمبلی میں موجودہ سادہ اکثریت کی وجہ سے اسے منظور کر لیا جائے گا۔انھوں نے کہا کہ اس کو ’مریم لا یا مریم کا قانون بھی اسی وجہ سے کہا جا رہا ہے کہ کیونکہ بنیادی طور پر اس کا مقصد ان تمام لوگوں کا بچانا ہے جن کے بیرون ملک ٹرسٹ اور آف شور کمپنیاں ہیں۔

سلیم مانڈوی والا کے مطابق پیپلز پارٹی سمیت تمام حزب مخالف نے اس کو مسترد کیا ہے اور قومی اسمبلی میں بھی اس کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔بعض اطلاعات کے مطابق ان اصلاحات پر کافی دیر سے کام ہو رہا تھا اور حزب مخالف کے علم میں یہ پہلے کیوں نہیں آئی ہیں۔اس پر سلیم مانڈوی والا نے اس حکومت کی بدنیتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے بارے میں حکمراں جماعت کے اپنے ارکان کو معلوم نہیں تھا اور صرف چند افراد اس کے بارے میں جانتے تھے۔

دوسری جانب مقامی میڈیا نے وفاقی بورڈ آف ریونیو کے حوالے سے بتایا ہے انکم ٹیکس قوانین میں ترمیم کا بل فنانس بل میں اس لیے شامل کیا گیا ہے تاکہ حکومت عالمی تنظیم او سی ڈی یعنی’ آرگنائزیشن آف اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلمپنٹ‘ حاصل کر سکے جس کے تحت حکام پاکستانیوں کے بیرون ملک موجود اثاثوں کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں گے۔تاہم حزب مخالف کی جماعتوں نے اس مقوف کو مسترد کیا ہے۔

تحریک انصاف کے رہنما عارف علوی کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے ابھی زبانی کلامی انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں تبدیلی نہ کرنے کا کہا ہے لیکن اس پر یقین نہیں کیا جائے گا۔انھوں نے اس ترمیم کو’ مریم لا‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت پاناما لیکس کے معاملے میں مریم نواز کا ٹرسٹ سامنے آنے کے بعد کوئی نیا قانون نہیں بنا سکتی تھی کیونکہ یہ سپریم کورٹ میں چیلینج ہو جاتا اور نہ ہی اس کو پرانی تاریخوں سے نافذ العمل کرا سکتی تھی اور اسی وجہ سے اب انکم ٹیکس آرڈیننس میں ٹرسٹ کی تعریف کو تبدیل کر دیا جائے کہ اگر انکم ٹیکس گوشوارے میں ٹرسٹ کا ذکر ہے تو اس سے مراد بیرون ملک میں موجود ٹرسٹ بھی ہو سکتا ہے۔

عارف علوی نے کہا کہ پاناما لیکس کی تحقیقات سے متعلق ضوابط کار پر ڈیڈ لاک بھی اسی وجہ سے ہے کہ حکومت حقائق کو چھپا رہی ہے جس میں وزیراعظم نے دو بار ٹیلی ویڑن اور ایک بار اسمبلی میں وضاحت کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں مزید پھنس گئے۔انھوں نے کہا کہ تحریک انصاف اس معاملے کو اتنی آسانی سے چھوڑے گی نہیں کیونکہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے اور اس میں سب سے تحقیقات ہونی چاہیں۔