پنجاب کا393ارب روپے خسارے کا بجٹ

آمدنی اور اخراجات میں 393ارب روپے کا فرق پورا کرنے کیلئے امداد اور قرضوں پر انحصار وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا کا بجٹ خسارہ ماننے سے انکار ‘محکمہ خزانہ کے افسروں سے رجوع کرنے کا مشورہ ‘صوبائی وزیراور محکمہ خزانہ کے افسران وضاحت پیش کرنے میں ناکام

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ پیر 13 جون 2016 16:59

پنجاب کا393ارب روپے خسارے کا بجٹ

لاہور(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-محمد نوازطاہرسے۔13جون۔2016ء) صوبہ پنجاب میں ٹیکس شرح میں ردو بدل کے ساتھ خسارے کا بجٹ پیش کردیا گیا ہے جس کا مجموعی حجم ایک ہزار چھ سو اکیاسی ارب اکتالیس کروڑ روپے ہے جبکہ ایک ہزار تین سو انیس ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے اس طرح آمدنی اور اخراجات میں 393ارب روپے کا فرق ہے جو پورا کرنے کیلئے امداد اور قرضوں پر انحصار کیا گیا۔

پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کے بعد وزیر خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے اسے خسارے کا بجٹ ماننے سے انکار کردیا اور سرپلس بجٹ پر اصرار کیا ہے تاہم اس کی وضاحت نہیں کی بلکہ وضاحت کیلئے محکمہ خزانہ کے افسروں سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا لیکن کوئی افسر یہ وضاحت نہ کرسکا تاہم ایک افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ بتایا کہ اعداد وشمار پورے کرنے کیلئے دو سو ارب روپے کا فوڈ اکاﺅنٹ استعمال کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

ایک سوال پر واضح کیا گیا کہ ٹیکس نیٹ بڑھانے اور غیر ملکی امداد اور بینکوں سے قرض لیکر اعداو شمار برابر کر لئے جائیں گے۔ پنجاب اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر سید ڈاکتر وسیم اختر نے بھی وضاحت کی ہے کہ پنجاب حکومت نے خسارے کا بجٹ پیش کیا اور اخراجات و آمدنی کے اعداد دشمار بینکوں سے قرضے کے لیکر حساب برابر کیا جائے گا۔ پیر کو آئندہ مالی سال چوہزار سوللہ اور دوہزار سترہ کا مالی میزانیہ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے جاری مالی سال میں بین الاقوامی منصوبے میں اربوں روپے کی بچت کرنے کے حکومتی اقدام کی خاص طور پر تحسین کی۔

جس دوران وزیراعلیٰ شہباز شریف کی قیادت میں حکومتی اراکین ڈیسک بجاتے جبکہ اپویزیشن لیڈر میاں محمودالرشید کی قیادت میں حزبِ اخلاف کے ارکان ”جھوٹ جھوٹ” او‘ر‘ فراڈ فراڈ “ کے نعرے لگاتے رہے ، اپوزیشن ارکان نے وقفے وقفے سے نعرہ بازی کی اور پیپر پھاڑ کر ٹکڑے بھی ہوا میں لہرائے۔ وزیر خزانہ عائشہ غوث نے کہا کہ مالی سال 2016-17ءکے بجٹ میں بھی تعلیم، صحت، زراعت، صاف پانی کی فراہمی اور امن عامہ کے شعبے ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہوں گے جن کیلئے کل بجٹ کا 57فیصد یعنی 804 ارب روپے کی صرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

تعلیم کے شعبے میں پچھلے سال کی نسبت 47 فیصد اور سکول ایجوکیشن کے ترقیاتی بجٹ میں 71 فیصد زائد رقم مختص کی گئی ہے۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں ترقیاتی بجٹ پچھلے سال سے 62 فیصد زائد ہے۔ زراعت، آبپاشی، لائیو سٹاک، جنگلات، ماہی پروری اور خوراک پر محیط زرعی معیشت کے لئے پچھلے سال کی نسبت 47 فیصد زائد بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ صاف پانی کے لئے مختص بجٹ پچھلے سا لکی نسبت 88 فیصد زائد ہے۔

امن عامہ کے لئے 48 فیصد اضافی رقم رکھی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری پیکیج کے نتیجے میں ترتیب دیئے جانے والے منصوبوں سے ملازمتوں کے تقریباً 7لاکھ نئے مواقع پیدا ہوں گے اور پاکستان کی مجموعی GDP میں اڑھائی (2.5) فیصد کا اضافہ متوقع ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ 46 ارب ڈالر کا یہ منصوبہ توانائی، موٹرویز، بندرگاہوں، ریلوے اور صنعت جیسے شعبوں میں انقلاب کے ذریعے ملک کی تقدیر بدل دے گا۔

انہوں نے بتایا کہ Land Record Management Information System کے ذریعے پٹوار کلچر جیسے فرسودہ نظام کو دفن کرکے صوبے میں ایک جدید کمپیوٹرائزڈعوام دوست نظام متعارف کروانے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اس منصوبے کے کے ذریعے اب تک 30ہزارسے زائد دیہی مواضعات اور 5کروڑ 50لاکھ سے زائد مالکان اراضی کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیا جا چکا ہے۔ ان سنٹرز سے ماہانہ دو لاکھ کے قریب کمپیوٹرائزڈ فردات اور 60ہزار سے زائد انتقالات کا اندراج ہو رہا ہے۔

اسی طرح حکومت نے عوام کو اشٹام پیپر کی خرید اور دستیابی کے ضمن میں جعلسازی، دھوکہ دہی اور فراڈ سے بچانے کےلئے اس پورے نظام کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا آغاز گوجرانوالہ میں ایک پائلٹ پراجیکٹ کے ذریعے کیا جا چکا ہے۔ آئندہ مالی سال میں اس کا دائرہ کار پورے پنجاب تک وسیع کردیا جائے گا۔ حکومت پنجاب کی گڈ گورننس کی پالیسی کا ایک سنگ میل پنجاب کے تمام ڈویڑنل ہیڈ کوارٹرز میں ”ای خدمت “ مراکز کا قیام ہے۔

ان مراکز کے ذریعے شہریوں کو 14 قسم کی مختلف سروسز ایک ہی چھت تلے میسر ہوں گی۔ لاہور، راولپنڈی اور سرگودھا میں ان ”ای خدمت “ مراکز نے اپنا کام شروع کردیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ مالی سال 2016-17ءکے بجٹ کا کل حجم ایک ہزار چھ سو اکیاسی ارب اکتالیس کروڑ روپے ہے۔ جنرل ریونیو receipts کی مد میں ایک ہزار 319 ارب روپے کا تخمینہ ہے جس میں ایک ہزار انتالیس ارب روپے وفاق کے قابل تقسیم محاصل میں ٹیکسوں کی مد میں صوبائی حصہ ہے جوکہ NFCایوارڈ کے تحت حاصل ہوگا۔

صوبائی ریونیو میں280ارب روپے کی آمدن متوقع ہے جس میں ٹیکسوں کی مد میں184ارب 40کروڑ روپے اورNON0-TAXریونیو کی مد میں 95ارب61کروڑ روپے شامل ہیں۔ آئندہ مالی سال کے لئے ترقیاتی پروگرام کا حجم 550ارب روپے ہے۔ رواں مالی سال کے 400ارب روپے کے پروگرام کی نسبت یہ پروگرام37.5فیصد زیادہ ہے۔ اس ترقیاتی پروگرام کے نتیجے میں روزگار کے پانچ لاکھ نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

مالی سال2016-17میں جاری اخراجات کا کل تخمینہ849ارب94کروڑ روپے ہے۔ پنجاب کے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں تعلیم، صحت، واٹر سپلائی اینڈSanitationوویمن ڈویلپمنٹ اور سماجی تحفظ جیسے سوشل سیکٹرز کے شعبوں کے لئے مجموعی طور پر 168ارب87کروڑ روپے کی ترقیاتی رقم مختص کی گئی ہے جوکہ آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کا 31فیصد ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایت پر سکول ایجوکیشن کے شعبہ کے لئے آئندہ مالی سال میں مختلف نوعیت کے ترقیاتی منصوبوں پرچھپن ارب چھہتر کروڑ روپے کی رقم صرف کی جائے گی جوکہ رواں مالی سال کے ترقیاتی پروگرام کے مقابلے میں71فیصد زیادہ ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صوبائی سطح پر جاری اخراجات کی مد میں31ارب روپے کی مختص کی جارہی ہے جوکہ رواں مالی سال کی نسبت سینتالیس فیصد زائد ہے۔ ضلعی سطح پر سکول ایجوکیشن کے شعبے کے لئے مجموعی طور پر 169ارب روپے کی رقم صرف کی جائے گی۔ اس طرح آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سکول ایجوکیشن کے شعبے میں مجموعی طور پر 256ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کی جائے گی۔

صوبے کے 6,511سکولوں میں 5ارب روپے کی لاگت سے بنیادی سہولیات فراہم کیں اور آٹھ ارب پچاس کروڑ روپے کی لاگت سے دو ہزار چھ سو چونسٹھ سکولوں کی مخدوش عمارات کی بحالی کا کام مکمل کیا۔ اس مسئلے کی اہمیت کے پیش نظر آج میں اس معزز ایوان کے سامنے حکومت پنجاب کی طرف سے 50ارب روپے کی لاگت سے Strengthening of Schoolکے ایک جامع اور مربوط پروگرام کے آغاز کا اعلان کررہی ہیں۔

اس پروگرام کے تحت آئندہ دو برسوں میں صوبے بھر کے تمام سکولوں میں مخدوش عمارات کی بحالی، پرائمری سکولوں میں چھتیس ہزار نئے دو برسوں میں صوبے بھر کے تمام سکولوں میں مخدوش عمارات کی بحالی پرائمری سکولوں میں میں چھتیس ہزار نئے کلاس رومز کی تعمیر اور Missing Facilitiesکی فراہمی کا کام مکمل کرلیا جائے گا۔ آئندہ ماللی سال کے کلاس رومز کی تعمیر اور Missing Facilitiesکی فراہمی کا کام مکمل کرلیا جائے گا۔

آئندہ مالی سال کے دوران اس منصوبے کے تحت28ارب روپے کی لاگت سے سکولوں میں انیس ہزار سے زائد اضافی کمرے اور تمام سکولوں میں Missing Facilitesفراہم کی جائیں گی۔ خادم پنجاب کی خصوصی ہدایت پر جنوبی پنجاب کے گیارہ اضلاع میں سیکنڈری سکولز کی سطح تک بچیوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی تعلیمی نظام میں Retentionکو یقنی بنانے کے لئے چھٹی سے دسویں جماعت کی بچیوں کو ماہانہ وظیفے کی رقم دو سو روپے سے بڑھا کر ایک ہزار روپے کردی گئی ہے۔

اس پروگرام سے ان پسماندہ اضلاع کی تقریباً چار لاکھ بچیاں مستفید ہوں گی۔ حکومت پنجاب سکولوں میں اساتذہ کی کمی پورا کرنے کے لئے گزشتہ دو برس سے ایک جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ آئندہ مالی سال میں بھی تمام سکولوں کے متعین کردہ سہولیات کی Tardstick کے مطابق45ہزار اضافی ٹیچر مہیا کئے جائیں گے۔ حکومت پنجاب کے تحت صرف سرکاری سکولوں میں ہی مفت تعلیم نہیں دی جارہی اس وقت صوبے بھر کے ہزارروںپرائیویٹ سکولوں میں 19لاکھ سے زائد طلباءوطالبات حکومت پنجاب کی مالی معاونت سے مفت تعلیم حاصل کررہی ہیں۔

اس مقصد کے لئے آئندہ مالی سال میں پنجاب ایجوکیشن فا?نڈیشن کے لئے12ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ اس طرح آئندہ مالی سال میں پنجاب ایجوکیشن فاﺅنڈیشن کی معاونت سے تعلیم حاصل کرنے والوں کی تعداد بڑھ کر بائیس لاکھ ہوجائے گی۔ حکومت پنجاب کا عزم ہے کہ صوبے کا کوئی ہونہار طالبعلم محض وسائل کی کمی کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم سے محروم نہ رہے۔

اس مقصد کے لئے سالانہ مختص کی جانے والی دو ارب روپے کی رقم میں100فیصد اضافہ کیا جارہا ہے اور آئندہ مالی سال کے بجٹ میں4ارب روپے مختص کیے جارہے ہیں۔ اس طرح فنڈ کا حجم بیس ارب روپے تک ہوجائے گا اور اس فنڈ سے وظائف حاصل کرنے والے طلبائ کی تعداد دو لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اسی طرح آئندہ مالی سال کے میزانیہ میں منکیرہ ضلع بھکر اور تونسہ ضلع ڈی جی خان جیسے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں چار ہزار دانش سکول قائم کرنے کے لئے3ارب روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ٹبہ سلطان پور ضلع وہاڑی میں طلباءوطالبات کے لئے زیر تعمیر 2دانش سکولوں پر بھی کام تیزی سے جاری ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ہائیر ایجوکیشن کے شعبے کے لئے مجموعی طو رپر 46ارب86کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویزہے۔ ہائیر ایجوکیشن کے شعبے کے چیدہ چیدہ ترقیاتی منصوبہ جات میں سیالکوٹ،بہاولپور، رحیم یار خان، فیصل آباد اور ملتان میں قائم کی گئی یونیورسٹیوں میں اضافی عمارات اور ضروری آلات کی فراہمی شامل ہے۔

آئندہ برس کے دوران 4 ارب روپے کی لاگت سے صوبے کے چار لاکھ ذہین طلبائ میں لیپ ٹاپس تقسیم کئے جائیں گے اور سیالکوٹ میں وویمن یونیورسٹی کی تعمیر اور آئی ٹی اینڈ انجینئرنگ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں شعبہ صحت کے لئے مجموعی طور پر 43 ارب 83 کروڑ روپے کی رقم مختص کئے جانے کی تجویز ہے جوکہ رواں مالی سال سے 43 فیصد زیادہ ہے۔

پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے شعبے میں بہت سے نئے اقدامات اور منصوبہ جات متعارف کروائے جارہے ہیں تاکہ پنجاب کے دور دراز علاقوں میں بسنے والے عوام کو ان کی دہلیز پر بہترین طبی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی ہدایت پر آئندہ مالی سال میں پانچ ارب 20 کروڑ روپے کی لاگت سے صوبے بھر کے تمام DHQ ہسپتالوں اور 15 بڑے THQ ہسپتالوں کو بحال کیا جائے گا۔

اس منصوبے کے تحت ان ہسپتالوں میں آئی سی یو، ڈینٹل یونٹ، جھلسنے والوں کے لئے خصوصی یونٹ اور سائیکو تھراپی یونٹ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ مزید برآں ہسپتالوں میں مریضوں کی سہولت کے لئے نئے بسروں اور دیگر وارڈ فرنیچر کی مکمل فراہمی شامل ہے۔ ان ہسپتالوں میں بنیادی Electronic Medical Record اور diagnostic کے نظام کی کمپیوٹرائزیشن بھی شامل ہے۔ اسی طرح آئندہ مالی سال میں مزید چار شہروں (ملتان، بہاولپور، فیصل آباد اور راولپنڈی) میں واقع لیبارٹریوں کی تنظیم نو کی جائے گی اور اس سلسلے میں تمام لیبارٹریوں کو ISO-17025 سرٹیفکیشن دلائی جائے گی۔

سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے شعبہ کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے آئندہ مالی سال میں 24 ارب 50 کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کے نئے میڈیکل کالجز سے ملحقہ DHQ ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرکے تدریسی ہسپتالوں کے برابرلایا جائے گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے مساوی اشتراک سے مری میں 100 بستروں پر مشتمل زچہ بچہ ہسپتال کے قیام کا منصوبہ بھی شامل ہے۔

3 ارب روپے کی لاگت کے اس منصوبے کے لئے آئندہ مالی سال میں 45 کروڑ کی رقم مختص کی جارہی ہے۔ گردوں اور جگر کی مہلک بیماریوں کے علاج کے لئے حکومت پنجاب نے پاکستان میں اپنی نوعیت کے منفرد منصوبے یعنی کہ پاکستان کنڈی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ لاہور پرباقاعدہ کام کا آغاز کردیا ہے۔ 15 ارب روپے سے زائد لاگتکے اس منصوبے پر برق رفتاری سے کام جاری ہے۔

اس منصوبے کے لئے آئندہ مالی سال میں 4 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت اپنے شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے اربوں روپے کی لاگت سے ”پنجاب صاف پانی پروگرام“ کا آغاز کر چکی ہے۔ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں 121 ارب روپے کی لاگت سے پنجاب کے دس اضلاع کی 45 تحصیلوں میں تقریباً 2 کروڑ 30 لاکھ سے زائد آبادی کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے گا۔

ان اضلاع میں جنوبی پنجاب کے چھ اضلاع (رحیم یار خان، لودھراں، ڈی جی خان، مظفرگڑھ، بہاولپور اور راجن پور) کے علاوہ فیصل آباد، قصور، اوکاڑہ اور ساہیوال کے اضلاع شامل ہیں جہاں زیرزمین پانی پینے کے لئے موزوں نہیں۔ صاف پانی کے اس منصوبے کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 30 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ دریں اثنائ اس پروگرام کے تحت ایک پائلٹ پراجیکٹ کے ذریعے جنوبی پنجاب کی پانچ تحصیلوں لودھراں، خانپور، حاصل پور، دنیا پور اور منچن آباد میں 80 سے زائد جدید ترین Water Filtration Plant کی تنصیب مکمل ہو چکی ہے۔

جن سے روزانہ 3 لاکھ افراد کو عالمی معیار کا پینے کا صاف پانی حاصل ہو رہا ہے۔ کسانوں اور زرعی شعبے کے حوالے سے صوبائی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے زراعت کی بہتری اور کاشتکاروں کی خوشحالی کے لئے 100 ارب روپے کے کسان پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ یہ پیکیج دو برسوں پر محیط ہے۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اس کسان پیکیج کے لئے 50 ارب روپے کی رقم مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔

حکومت پنجاب آئندہ مالی سال کے بجٹ میں زرعی معیشت کے شعبہ (آبپاشی، لائیو سٹاک، جنگلات و ماہی پروری اور خوراک) کے لئے مجموعی طور پر 147 ارب روپے کی رقم مختص کررہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہبازشریف کے ویڑن کے مطابق صوبے میں150ارب روپے مالیت کا خادم پنجاب رورل روڈز پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت اب تک پنجاب میں31ارب روپے کی لاگت سے 3,590کلومیٹر پر محیط405سڑکوں کی تعمیر نو اور توسیع کا کام مکمل کیا جاچکا ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اس منصوبے کے لئے27ارب روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لائیوسٹاک کا شعبہ پنجاب کی معیشت کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ صوبہ کے 30سے 35فیصد لوگ اپنی کل آمدن کا 40فیصد حصہ لائیو سٹاک سیکٹر سے حاصل کرتے ہیں۔ رواں مالی سال میں پنجاب لائیوسٹاک پالیسی کو دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے۔ صوبہ بھر میں چھ کروڑ سے زائد جانوروں کو حفاظتی ٹیکے لگائے گئے۔

عوام کو صحت مند اورتازہ گوشت کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے ہیلپ لائن کا اجرا کیا گیا۔ اس کے علاوہ مویشیوں کے لئے موبائل ڈسپنسریز بنائی گئیں۔ علاوہ ازیں ملکی سطح پر ویکسین کی پیداوار بڑھانے کے لئے ویکسین ریسرچ انسٹیٹیوٹ لاہور میں بین الاقوامی معیار کی سہولیات فراہم کی اجرہی ہیں۔ آئندہ مالی سال میں اس شعبے کے ترقیاتی پروگرام کے لئے9ارب22کروڑ روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔

آبپاشی کے جامع نظام کے بغیر زرعی ترقی اور خود کفالت ممکن نہیں۔ آئندہ مالی سال کے لئے محکمہ آبپاشی کے ترقیاتی کاموں کے لئے41ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے جو رواوں مالی سال کے مقابلے میں 29فیصد زیادہ ہے۔ آبپاشی کے شعبے میں جاری منصوبوں میں جناح بیراج، خانکی بیراج اور سلیمانکی بیراج کی بحاللی اور تعمیر نو کے منصوبے شامل ہیں۔ پرامن معاشرہ روشن مستقبل کی ضمانت ہوتا ہے۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں امن وامان کے لئے مجموعی طور پر 145ارب46کروڑ روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے۔ حکومت پنجاب نے چھ بڑے شہروں شعنی لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، ملتان اور بہاولپور کی سکیورٹی کو جدید خطوط پر یقینی بنانے کے لئے پنجاب سٹی پروگرام کا آغاز کردیا ہے۔ اس منصوبے کا کل تخمینہ تقریباً44ارب روپے لگایا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں پنجاب سیف سٹی اتھارٹی کے تحت لاہور میں13ارب رپے کی لاگت سے جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے نگرانی کے ایک جامع نظام پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔

جسے جون 2017ئ تک مکمل کرلیا جائے گا۔ بقیہ پانچ شہروں میں اس منصوبے کو انشاءاللہ دسمبر2017ءتک مکمل کرلیا جائے گا۔ اس منصوبے کے تحت جدید ترین سکیورٹی کیمرروں اور کنٹرول رومز کے ذریعے شہر بھر کی نگرانی کی جائے گی۔ جس سے لاقانونیت اور سٹریٹ کرائم کا خاتمہ ممکن ہوگا۔ پولیس کے نظام میں بہتری اور تھانہ کلچر کا خاتمہ ہر پاکستانی کا دیرینہ خواب ہے۔

اس مقصد کے لئے روایتی پولیس میں اصلاحات اور نئے سپشلائزڈ یونٹس کے قیام کو بھی یقینی بنایا جارہا ہے۔ ڈولفن فورس، پولیس ایمرجنسی ریسپانس یونٹ اور سپشلائزڈ پروٹیکشن یونٹ کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تھانوں کے نظام کو ایک جدید مہذب معاشرے کے تقاضوں کے مطابق بنانے کے لئے اب تک پنجاب کے 716تھانو میں سے 374تھانوں کو اس آئن لائن نظام سے منسلک کیاجاچکا ہے۔

آئندہ برس اس نظام کو پورے پنجاب میں رائج کردیا جائے گا۔ اس موقع پر پنجاب حکومت نے آئندہ مالی سال میں ڈولفن فورس اس کا دائرہ کار فیصل آباد، گوجرانوالہ، راولپنڈی، ملتان، بہاولپور، سیالکوٹ، جھنگ اور سرگودھا میں پھیلایا جائے گا۔ وفاقی حکومت ہویا صوبائی، ہماری قیادت عوام کو لوڈشیڈنگ سے نجات دلانے کے لئے شب وروز کوشاں ہے۔ حکومت نے کوئلے، گیس، شمسی توانائی اور پن بجلی کے منصوبوں پر بیک وقت کام کا آغاز کیا ہے۔

ہمارے لئے یہ امر باعث افتخار ہے کہ حکومت پنجاب نے شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے والے پاکستان کی تاریخ کے پہلے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا ہے۔ قائداعظم سولر پارک میں قائم کئے جانے والے100میگاواٹ کے اس پاور پلانٹ سے جولائی2015ءسے ملکی سسٹم میں بجلی شامل ہورہی ہیں۔ دریں اثنا ایک معروف چینی کمپنی نے قائداعظم سولر پارک میں چائینہ پاکستان اکنامک کورڈیور(CPEC) منصوبے کے تحت900میگاواٹ کے ایک نئے منصوبے پر کام کا آغاز کردیا ہے جس کے تحت آئندہ چند دنوں میں 300میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہوجائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پنجاب میں بیک وقت پبلک سیکٹر اور نجی شعبے میں بجلی کے منصوبہ جات پر تیزی سے کام جاری ہے۔ نجی شعبے میں مجموعی طور پر 6,545 میگاواٹ سے زائد کے منصوبہ جات پر کام مختلف مراحل میں ہے۔ حکومت پنجاب اور وفاقی حکومت نے گیس کے تین منصوبوں پر بیک وقت کام شروع کردیا ہے جن سے مجموعی طور پر 3600 میگاواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو جائے گی۔

آئندہ مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں توانائی کے 16 منصوبہ جات کی تکمیل کے لئے وسائل فراہم کئے جارہے ہیں۔ بھکھی ضلع شیخوپورہ میں حکومت پنجاب کی سرمایہ کاری سے گیس سے چلنے والا 1180 میگاواٹ کا پاور پلانٹ زیرتعمیر ہے۔ حویلی بہادر شاہ ضلع جھنگ کے مقام پر 1230 میگاواٹ کا پاور پلانٹ، بلوکی کے مقام پر 1223 میگاواٹ کا پاور پلانٹ اور قادر آباد ساہیوال میں 1320 میگاواٹ کوئلے سے چلنے والا پاور پلانٹ انشاء اللہ دسمبر 2017ئ تک مکمل ہو جائیں گے۔

تونسہ کے مقام پر نجی شعبے کی سرمایہ کاری سے 135میگاواٹ کے ہائیڈل پاور پلانٹ کی منصوبہ بندی کا کام مکمل کیا جا چکا ہے۔ روجھان کے مقام پر ہوا کی طاقت سے بجلی پیدا کرنے والے 1000 میگاواٹ کے منصوبے پر ڈنمارک کی کمپنی منصوبے کے قابل عمل ہونے پر کام کررہی ہے۔ عوام کو محفوظ اور عالمی معیار کی سفری سہولیات فراہم کرنا موجودہ حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔

انشاءاللہ ملتان میٹرو کا افتتاح جلد ہو جائے گا۔ اسی طرح آپ کی حکومت نے لاہور اورنج میٹرو ٹرین جیسے ایک ایسے منصوبے کا آغاز کیا ہے اس کی تکمیل پر ابتدا میں تقریباً اڑھائی لاکھ افراد یومیہ سفر کریں گے بعدازاں اس سے پانچ لاکھ افراد یومیہ استفادہ کریں گے۔ اس سے اڑھائی گھنٹے کا سفر 45 منٹ میں طے ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی کے بعد پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی ایسے منصوبوں پر عملدرآمد کیا جائے گا۔

اقتصادی ترقی اور معاشی نشوونما، کوالٹی انفراسٹرکچر کے بغیر ناممکن ہے۔ حکومت پنجاب نے ایک جامع منصوبہ کے تحت صوبے بھر کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے انفراسٹرکچر کے کئی منصوبے تشکیل دیئے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اس شعبے کے ترقیاتی پرگورام کے لئے 130 ارب 28 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے۔ ان منصوبوں میں بڑے اور چھوٹے شہروں میں تعمیر ہونے والی سڑکیں اور پل شامل ہیں۔

حکومت ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے پسماندہ قبائلی علاقوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ ان علاقوں میں عوام کی سہولت کے لئے 138 کلومیٹر لمبی سڑکوں کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ دریں اثناءرواں مالی سال کے دوران علاقے کے 10ہزار گھروں کو شمسی توانائی سے روشن کیا گیا ہے۔ ہم نے آئندہ مالی سال کے دوران ان علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لئے ایک ارب 20 کروڑ روپے کی رقم مختص کی ہے۔

آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں یوتھ افیئرز کے لئے مجموعی طور پر 23 ارب 30 کروڑ روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے۔ مختلف شعبہ جات میں جاری نوجوانوں کے منصوبہ جات میں ان کی فنی تربیت، لیپ ٹاپس کی فراہمی اور خود روزگار سکیم کے ذریعے انہیں مواقع فراہم کرنا شامل ہیں۔ اسی طرح 2 ارب 90 کروڑ روپے کی لاگت سے جاری منصوبے جس میں نوجوانوں کے لئے سپورٹس کمپلیکس، سٹیڈیم اور جمنیزیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جارہا ہے تاکہ وہ صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔

اس کے ساتھ ساتھ صوبے میں E-Libraries 36 بھی قائم کی جارہی ہیں جہاں پر نوجوانوں کو مطالعہ کی بہترین سہولیات میسر ہوں گی۔ کوئی بھی معیشت ہنرمند افراد کے بغیر تعمیر و ترقی کی منزل طے نہیں کر سکتی۔ چنانچہ حکومت پنجاب نے فنی اور تکنیکی تعلیم کے شعبے میں بھی ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی ہے۔ Punjab Skills Strategy 2018ءکے تحت 20 لاکھ نوجوانوں کو فنی اور ووکیشنل ٹریننگ سے آراستہ کرنے کا ایک جامع پروگرام مرتب کیا گیا ہے۔

آئندہ مالی سال میں اس شعبے کے لئے 6 ارب 50 کروڑ روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے۔ گھر بیٹھے انٹرنیٹ کے ذریعے روزگار ایک نئی حقیقت ہے جس سے بہت سے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ اس لئے حکومت پنجاب نے ای روزگار ٹریننگ پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت پنجاب بھر میں تعلیم یافتہ افراد بالخصوص خواتین کو گھر بیٹھے باعزت روزگار کمانے کے مواقع فراہم کئے جائیں گے۔

اس منصوبے کے تحت پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ صوبے بھر میں تربیتی مراکز قائم کرے گا جن میں 10ہزار سے زائد افراد کو انٹرنیٹ کے ذریعے معاشی طور پر خودکفیل بننے کی بلامعاوضہ تربیت دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ خود روزگار سکیم کی افادیت کے پیش نظر مالی سال2016-17میں اس سکیم کے لئے مزید3ارب روپے مہیا کیے جارہے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے اختتام تک مجموعی طو رپر 15لاکھ سے زائد خاندانوں کو معاشی خود کفالت کے لئے بلاسود قرضے جاری کیے جاچکے ہو ںگے۔

اقلیتوں کی فلاح وبہبود اور تحفظ کے لئے رواں مالی سال کے دوران46کروڑ روپے کی لاگت سےMinorities Development Fundقائم کیا گیا ہے جس کے تحت ترقیاتی منصوبہ جات مکمل کئے جارہے ہیں۔ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے طلباوطالبات کے لئے رواں مالی سال کے دوران22کروڑ روپے کی مالیت کے تعلیمی وظائف کا بھی اجراءکیا گیا ہے اور آئندہ مالی سال میں بھی اس سلسلے کو25کروڑ روپے کی لاگت سے جاری رکھا جائے گا۔

آئندہ بجٹ میں مجموعی طور پر ہیومن رائٹس اور اقلیتی برادری کی بہتری کے لئے ایک ارب 60کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز ہے۔ محنت کشوں کے لئے فیصل آباد میں میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ہیلتھ سنٹر اور جھنگ میں50بستروں پر مشتمل ہسپتال کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ پنجاب ورکرز ویلفیئر بورڈ کے 62سکولوں میں 45ہزار بچے زیر تعلیم ہیں جن کو کتابیں، کاپیاں، یونیفارم اور ٹرانسپورٹ کی مفت سہولیات میسر ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ صنعتی کارکنوں کے لئےMarriage Grantاور ان کے بچوں کے لئے تعلیمی وظائف کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ صوبہ بھر میں مختلف لیبر کالونیز میں6ہزار سے زائد فلیٹس زیر تعمیر ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے بھی وفاقی حکومت کی تقلید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے مزدور کی کم ازکم تنخواہ14ہزار روپے مقرر کی ہے۔ حکومت پنجاب اس وعدے پر مکمل عملدرآمد کرے گی اور مزدوروں اور محنت کشوں کو ان کا حق دلانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی۔

پنجاب حکومت نئے ٹیکس لگانے کی بجائے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافے اور محصولات کے نظام کو کرپشن سے پاک کرنے کے لئے اقدامات پر یقین رکھتی ہے۔ چنانچہ حکومت نے آئندہ برس کے بجٹ میں پراپرٹی ٹیکس کے دائرہ کار کو گھروں سے بڑھا کر پلاٹوں تک وسیع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اقدام سے جہاں زمینوں کی قیمتوں میں مصنوعی اضافے کا سدباب ہوگا وہاں پلاٹوں کی خریدوفروخت میں سٹے بازی کے رجحان کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔

اسی طرح سیلز ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھا کر اس میں بعض نئی خدمات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اسی طرح حکومت پنجاب نے صوبائی ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں10فیصد اضافہ کا فیصلہ کیا ہے۔ اس اضافے کا تعین وفاقی حکومت کے لئے طے شدہ فارمولے کے تحت کیا جائے گا۔ بجٹ پر بحث سولہ جون سے شروع ہوگی اور جو چار روز جاری رہے گی۔

متعلقہ عنوان :