عورتوں کا قتل ،ان پر تشدد اور تضحیک کا سلسلہ فی الفور بند کیا جائے، ہوم بیسڈ وومن ورکرز فیڈریشن کے زیر اہتمام احتجاجی مظاہرے میں مطالبہ

بدھ 15 جون 2016 23:06

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔15 جون ۔2016ء) اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کا عورتوں پر تشدد کو جائز قرار دینے سے عورتوں کی تضحیک اورانکے خلاف پر تشدد کاروائیوں ، جنسی تشدد اور قتل کی ورداتوں میں اضافہ ہوا ہے اس لئے یہ ادارہ عورتوں پر ہونے والے مظالم اور قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات کا براہ راست ذمہ دار ہے لہذاس ادارے کو فی الفور ختم کیا جائے اور عورتوں کی تذلیل کرنے والے افراد کو قرارو اقع سزا دی جائے اور عورتوں کے تحفظ کے لیے خصوصی قوانین بناکر ان پر اطلاق کو یقینی بنایا جائے،ان خیالات کا اظہار عورتوں کے قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات ،اسمبلی اور میڈیا پر عورتوں کی توہین اور جنسی زیادتیوں کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں کیا جس کا اہتمام ہوم بیسڈوومن ورکرز فیڈریشن نے کیا جس میں محنت کش عورتوں کے علاوہ سماجی اورانسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔

(جاری ہے)

مظاہرے کی قیادت فیڈریشن کی مرکزی رہنما سائرہ فیروز اور شبنم اعظم کر رہیں تھیں،مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کی رہنماؤں نے کہا کہ ملک میں جاری پدرسری نظام پر مبنی جاگیردارانہ سماج میں عورتوں کو تیسرے درجے کی حیثیت دے رکھی ہے اس کو قائم رکھنے کے لیے قبائلی ، جاگیردارانہ رجعتی سوچ کو مذہب کا غلاف پہنا کر عورت کو مسلسل تذلیل اور وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

یہ گھناؤنا عمل دیہاتوں سے لیکر شہروں تک میں معمول بن گیا ہے اور عورتوں کو جبری ، جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرنا اور عزت اور غیرت کے نام پر قتل کرنا عام سی بات تصور کیا جا رہا ہے۔ جس سے سماج میں آبادی کے آدھے حصے کو زبردست خوف میں مبتلا کردیا ہے،انہوں نے مزید کہا کہ دیہاتوں میں ہاری عورتوں خصوصاً غیر مسلموں کو جبراً جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جا تا ہے ، مذہب تبدیل کر وا یا جاتا ہے اور عموعی طور پر تشدد کے بعد قتل کر دیا جا تا ہے اس کی حالیہ مثال سترہ سالہ ہندو ہاری لڑکی کا سانگھڑ میں ہونے والا قتل ہے۔

جبکہ شہروں میں بھی لڑکیوں کو زندگی کا فیصلہ کرنے کے قانونی حق کے استعمال کرنے پرزندہ جلادیاجاتا ہے۔اس عورت دشمن رویے میں نام نہاد دانشور مذہب کا لبادہ اوڑھے نام نہاد علماء اور عوامی نمائندگی کا دعوی کرنے والے افراد بھی شامل ہیں جو عورت کی تذلیل کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔ ملک کی پارلیمنٹ ہو، درس گاہیں ہوں، ٹی وی چینلزہوں یا کہ عبادت گاہیں ہر ایک جگہ پر عورت کی تذلیل اور اسے کم درجے کا انسان ثابت کرنے کی تبلیغ کی جاتی ہے ۔

اس انسانیت دشمن رویے میں مذہبی جماعتیں اور ان کے رہنماپیش پیش ہیں۔یہ رہنما عورتوں کے جلائے جانے اور ان پر ہونے والے جنسی تشدد کے واقعات پر تو خاموش رہتے ہیں،لیکن عورتوں کے تخفظ کے لیے پیش کیے جانے والے بل پر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور اسے مذہب کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہیں اس کا سب سے بڑا ثبوت اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ کا عورتوں پر تشدد کو جائز قرار دینے کا باضابطہ اعلان ہے جس پر سماج میں عمومی خاموشی عورتوں پر تشدد کو فروغ دینے کا باعث بن رہی ہے،خواتین رہنما ؤں نے کہا کہ عورتیں نہ صرف گھروں میں بلکہ کھیتوں ، کارخانوں اور کام کی جگہوں پر بدترین صنفی تفاوت کا شکار ہیں اور اکثر اوقات عورت دشمن رویوں کی وجہ سے انہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔

اور وہ تمام افراد خصوصاً عورتیں جو عورتوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہیں ان کی منصوبہ بند طریقے سے نہ صرف کردار کشی کی جاتی ہے بلکہ انہیں سماج کا ناپسندیدہ ترین بناکر پیش کیا جاتا ہے اس کی ایک مثال حالیہ ٹی وی ٹاک شو میں عورت حقوق کی ایک کارکن کے لیے استعمال کی گئی نا زیبا اور اخلاق سے گری ہوئی گفتگو ہے جو کہ ایک نام نہاد مذہبی علم ہونے کے دعویدار شخص نے کی ہے ۔

وقت آ گیا ہے کہ ریاست ، حکومت اور معاشرے کے ترقی پسند ، روشن خیال ، جمہوریت پسند اور انسانیت دوست حلقے معاشرے میں بڑھتے ہوئے عورت دشمن پر تشدد رجحان کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرے تاکہ سماج میں بڑھتی ہوئی وحشت اور بربریت کا سد باب ہو سکے اور عورت سماج کو بنانے میں اپناکردار ادا کر سکے،مظاہرے میں مطالبہ کیا گیا کہ عورتوں پر جنسی زیادتی، عزت اور غیر ت کے نام پر قتل کرنے اور انہیں زبردستی مذہب تبدیلی میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دی جائے ۔

عورتوں کے تحفظ کے لیے بامعنی قانون سازی کرکے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ عورت کی تذلیل اور تضحیک کے مرتکب افراد کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دیا جائے، عورتوں پر تشدد کو جائز قرار دینے اور تشدد کا پرچار کرنے پر اسلامی نظریاتی کونسل کو فی الفور ختم کیا جائے اوران کے سربراہ سمیت تمام ممبران پر تشدد کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ میڈیا پر عورت کی تذلیل اور ہتک آمیز مواد اور پرچار کو روکنے کے لیے سخت قانون سازی کی جائے، جرگہ اوردیگر متبادل غیر قانونی عدالتی نظام کے خاتمے کو یقینی بنایا جائے۔

متعلقہ عنوان :