ملک بھر سے 1276افراد کے لاپتہ ہونے کے کیس درج ہیں،جسٹس (ر) جاوید اقبال

وفاقی اور صوبائی حکومتیں لاپتہ افراد کے مسئلہ کو اہمیت دے رہی ہیں نہ ہی کمیشن کے ساتھ کوئی تعاون کیا جارہا ہے،جنوبی پنجاب کی حالت انتہائی خراب ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگ لاپتہ ہورہے ہیں، اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے کراچی کے 368لاپتہ افراد کی فہرست دی انکوائری شروع کی تو 309افراد مختلف کیسوں کے باعث جیلوں میں تھے زیادہ تر کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا،خفیہ ادارے کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں،بجٹ دیا نہیں تو وزارت داخلہ کا سیکشن افسر کمیشن کا آڈٹ کرنے آگیا، لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ صوبائی حکومتیں کمیشن کے ساتھ تعاون کیلئے افسران کی ٹیم مختص کریں،کمیٹی کی لاپتہ افراد کمیشن سربراہ کو تعاون کی یقین دہانی کمیٹی چیئرمین رحمان ملک نے کمیشن کو آئینی حیثیت دینے کیلئے بل تیار کرنے کی تجویز دے دی، سینیٹر مختارعاجز دھامرا کا وزیرداخلہ چوہدری نثار کی اجلاس میں عدم شرکت کے باعث کمیٹی سے علامتی واک آئوٹ

پیر 19 دسمبر 2016 15:18

ملک بھر سے 1276افراد کے لاپتہ ہونے کے کیس درج ہیں،جسٹس (ر) جاوید اقبال
'اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 19 دسمبر2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو بریفنگ دیتے ہوئے لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ کمیشن کے پاس ملک بھر سے 1276افراد کے لاپتہ ہونے کے کیس درج ہیں،وفاقی اور صوبائی حکومتیں لاپتہ افراد کے مسئلہ کو اہمیت دے رہی ہیں نہ ہی کمیشن کے ساتھ کوئی تعاون کیا جارہا ہے،جنوبی پنجاب کی حالت انتہائی خراب ہے جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگ لاپتہ ہورہے ہیں، اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے کراچی کے 368لاپتہ افراد کی فہرست دی انکوائری شروع کی تو 309افراد مختلف کیسوں کے باعث جیلوں میں تھے زیادہ تر کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا،خفیہ ادارے کمیشن کے ساتھ مکمل تعاون کر رہے ہیں،بجٹ دیا نہیں تو وزارت داخلہ کا ایک سیکشن افسر کمیشن کا آڈٹ کرنے آگیا،کمیٹی نے لاپتہ افراد انکوائری کمیشن کے سربراہ کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی ہے کہ کمیشن کے ساتھ تعاون کیلئے افسران کی ٹیم مختص کریں جبکہ کمیٹی کے چیئرمین رحمان ملک نے کمیشن کو آئینی حیثیت دینے کیلئے بل تیار کرنے کی تجویز دے دی ،سینیٹر مختار عاجز دھامرا نے وزیرداخلہ چوہدری نثار کی اجلاس میں عدم شرکت کے باعث کمیٹی سے علامتی واک آئوٹ کیا۔

(جاری ہے)

پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سینیٹر رحمان ملک کی زیرصدارت پارلیمنٹ لاجز میں ہوا کمیٹی کو لاپتہ افراد کے مسئلہ پر بریفنگ دیتے ہوئے لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے بتایا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں لاپتہ افراد کے مسئلے کو اہمیت نہیں دے رہیں، شادی کے چند ماہ بعد جوان عورتوں کے شوہر لاپتہ کردیئے جاتے ہیں اور وہ اپنے شوہر کی تلاش میں دربدر پھرتی ہیں ،اس کے علاوہ بے شمار مائیں اپنے بچوں کی تلاش کیلئے ٹھوکریں کھاتی ہیں اور صرف لاپتہ افراد کمیشن ہی ایسا فورم ہے جو انہیں نا صرف داد رسی فراہم کرتا ہے بلکہ ان کے لاپتہ ہونے والوںکو بازیاب بھی کرواتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ پنجاب کے 223،سندھ کے 200،بلوچستان کے 96،کے پی کے 654،فاٹا کے 53،آزادکشمیر کے 11اور گلگت بلتستان کے 4کیس کمیشن کے پاس زیرسما عت ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کمیشن انتہائی محدود وسائل کے ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت کام کر رہا ہے سب سے خراب حالت پنجاب کی ہے،223افراد کے کیس کمیشن کے پاس ہیں ،جنوبی پنجاب میں روزانہ کی بنیاد پر افراد لاپتہ ہورہے ہیں اور کمیشن کے پاس کیس آرہے ہیں وہاں پولیس کی تفتیش مکمل طور پر ناکام ہے اور تھانہ کلچر ویسے کا ویسا ہی ہے اور ایسا لگ رہا ہے جنوبی پنجاب میں صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ پنجاب حکومت کمیشن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کر رہی ،پنجاب حکومت میں کمیشن جب کیسوںکی سماعت کیلئے جاتا ہے تو کرائے ایک کمرے میں سماعت کی جاتی ہے،پنجاب کے وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ سے ملاقات کیلئے کوشش کی تاہم ان سے ملاقات بھی نہ ہوپائی۔انہوں نے کہاکہ پنجاب کے چیف سیکرٹری اور آئی جی نے باربار کی درخواست کے باوجود کمیشن کو وقت نہیں دیا۔

انہوں نے سندھ سے متعلق کیسوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے کراچی کے 368لاپتہ افراد کی فہرست دی جب انکوائری شروع کی تو ان میں سے 309افراد مختلف کیسوں کے باعث جیلوں میں تھے اور زیادہ تر کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا۔انہوں نے کہا کہ سندھ کے 200افراد لاپتہ ہیں اور کمیشن کے پاس یہ کیس زیرسماعت ہیں لیکن سندھ حکومت کی طرف سے بالکل تعاون نہیں کیاجارہا ،سندھ کے چیف سیکرٹری اورآئی جی بھی کمیشن کو کوئی اہمیت نہیں دیتے،جونیئر افسران کو کمیشن کے پاس بھیج دیا جاتا ہے جنہیں کیس سے متعلق علم ہی نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے 96کیس کمیشن کے پاس ہیں اور بلوچستان میں لاپتہ افراد سے متعلق مبالغہ آرائی کیجارہی ہے پہلے کہا گیا کہ بلوچستان کے 18ہزار افراد لاپتہ ہیں،پھر یہ تعداد17ہزار بتائی گئی لیکن جب میں نے ان افراد کے کوائف مانگے تو کسی نے آج تک ان کے کوائف فراہم نہیں کیے ،بلوچستان کے بہت سے لوگ افغانستان اور جنیو ا میں ہیں اور جبکہ بڑی تعداد میں فراری کمیپوں میں بھی موجود ہیں۔

انہوں نے کہاکہ کے پی کے کی654کیس کمیشن کے پاس زیرسماعت ہیں اور یہ صورتحال انتہائی سنگین ہیں ان میں زیادہ تر افراد 2009ا ور 2007میں لاپتہ ہوئے لیکن آئی جی کے پی کے کی طرف سے بھی کوئی تعاون حاصل نہیں ۔کمیٹی کے چیئرمین رحمان ملک نے تجویز دی کہ لاپتہ افراد کمیشن کو آئینی شکل دینے کیلئے ایک بل تیار کیا جائے جو پارلیمنٹ میں لایا جائے تاکہ یہ کمیشن بغیر کسی مسئلے اور رکاوٹ کے اپنا کام جاری رکھے ۔

انہوں نے تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز کو ہدایت کی کہ وہ کمیشن کی معاونت کیلئے افسران پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دیں تاکہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو حل کیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے اندر انڈیا حالات خراب کر رہا ہے اور صوبے کو پاکستان سے الگ کرنا چاہتا ہے،وہاں بھارتی خفیہ ایجنسی کے لوگ پولیس اور ایف سی کا یونیفارم استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ اپنے اداروں پر الزام تراشی نہ کی جائے ،آئندہ اجلاس میں متعلقہ اداروں کو بھی طلب کرکے بریفنگ لی جائے گی۔سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہاکہ بلوچستان سے 1900افراد کے لاپتہ ہونے کی فہرست میں میرے پاس ہے،ان میں 7افراد میری فیملی کے ہیں جنہیں ماردیا گیا ہے،بلوچستان سے جتنی بھی لاشیں ملتی ہیں یہ تمام لاپتہ افراد ہی ہوتے ہیں ۔

سینیٹر اصرار اللہ زہری نے کہاکہ راحیل شریف جب آرمی چیف کے عہدے سے ریٹائرہوئے تو اس کے ساتھ ہی بلوچستان میں پرائیویٹ لشکر دوبارہ فعال اور متحرک ہونا شروع ہوگئے ہیں،حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ دہشتگردی ،دہشتگردوں کی معاونت اور سہولت کاری کے نام پر کسی کو بھی اٹھا لیا جاتا ہے اور بعد میں اس کی لاش ملتی ہے۔سینیٹر چوہدری تنویر نے کہاکہ لاپتہ افراد کا مسئلہ انتہائی اہم ہے اس کو حل کرنا چاہیے اور اس کیلئے کمیشن کو درکار وسائل فراہم کیے جائیں۔سپیشل سیکرٹری داخلہ شعیب صدیقی نے کہا کہ لاپتہ کمیشن وزارت داخلہ کے ماتحت نہیں وزارت کا کام سہولیات فراہم کرنا ہے تاہم جس افسر نے کمیشن سے آڈٹ کرانے کا مطالبہ کیا تو اس سے وضاحت طلب کی جائے گی