ایبٹ آباد واقعہ سے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر کوئی بڑی آنچ نہیں آئی، وزیراعظم سے اس کی رپورٹ عام کرنے کا مطالبہ کروں گا، جن کی والدہ کا نام پاناما لیکس میں ہے ،جو سرے محل، دبئی کے محلات، فرانس کی دولت، ہیروں کے ہار کی کرپشن میں ملوث اور سوئس کیسوں میں سزا یافتہ ہیں وہ بھی کرپشن کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کر رہے ہیں، زرداری نے اپنی سیاسی زندگی میں کرپشن کے خلاف کبھی ایک لفظ بھی نہیں بولا، ایماندار آئی جی کو جبری رخصت پر بھجوا دیا گیا، سابق دور حکومت میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی حکومت کے لوگ بھی شامل تھے ،ان کے کہنے پر انکوائری کا ریکارڈ بھی ضائع کر دیا گیا،

پیپلز پارٹی کا کرپشن کے خلاف مہم چلانے کا اعلان ایسے ہی ہے جیسے بی جے پی مسلمانوں کے حقوق کے لئے مہم چلانے کا اعلان کرے، جن کے پلے ہی کچھ نہیں ان کا مجھ پر کیا دبائو ہوگا وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا پولیس لائنز ہیڈ کوارٹرز میں ریپڈ رسپانس فورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب، صحافیوں سے گفتگو

منگل 20 دسمبر 2016 14:42

ایبٹ آباد واقعہ سے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر کوئی بڑی آنچ نہیں ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 دسمبر2016ء) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ایبٹ آباد کے واقعہ سے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر کوئی بڑی آنچ نہیں آئی، وزیراعظم سے اس کی رپورٹ عام کرنے کا مطالبہ کروں گا، جن کی والدہ کا نام پاناما لیکس میں ہے اور سرے محل، دبئی کے محلات، فرانس کی دولت، ہیروں کے ہار کی کرپشن میں ملوث اور سوئس کیسوں میں سزا یافتہ ہیں وہ بھی کرپشن کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کر رہے ہیں۔

زرداری نے اپنی سیاسی زندگی میں کرپشن کے خلاف کبھی ایک لفظ بھی نہیں بولا۔ ایک ایماندار آئی جی کو جبری رخصت پر بھجوا دیا گیا، سابق دور حکومت میں اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی جس میں حکومت کے لوگ شامل تھے ان کے کہنے پر انکوائری کا ریکارڈ بھی ضائع کر دیا گیا۔

(جاری ہے)

منگل کو پولیس لائنز ہیڈ کوارٹرز میں ریپڈ رسپانس فورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب اور بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاس آئوٹ ہونے والوں کے لئے آج خوشی اور مسرت کا موقع ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ان کے خاندانوں کے لئے یہ باعث مسرت ہے کہ ان کے جوان پولیس میں شامل ہو رہے ہیں اور شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاس آئوٹ ہونے والے نوجوانوں اور ان کے خاندانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ خوشی کے ساتھ ساتھ یہ اپنے عزم کو تازہ کرنے کا بھی موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاس آئوٹ ہونے والے جوان اس وردی کا مان رکھیں جو وہ پہن رہے ہیں اور اس کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ مملکت نے ان نوجوانوں کے کندھوں پر ایک ذمہ داری عائد کی ہے اور اس ذمہ داری کو پاس آئوٹ ہونے والے جوان کبھی فراموش نہ کریں اور نہ ہی اس سے روگردانی کریں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ ساڑھے تین سالوں کے دوران پولیس میں جو بھی بھرتی ہوئی وہ شفاف انداز میں ہوئی اور اس میں کسی کی حتیٰ کہ میری سفارش اور اثر و رسوخ کا بھی کوئی عمل دخل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تمام نوجوان جو آج پاس آئوٹ ہو رہے ہیں، یہ میرٹ پر آئے ہیں اور اپنی قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر ان کو منتخب کیا گیا ہے اور یہ کسی حکومت کے ملازم نہیں بلکہ مملکت پاکستان کے ملازم ہیں، اس لئے انہیں اس مملکت اور عوام کے ساتھ اپنی وفاداری نبھانی ہے۔

انہوں نے پاس آئوٹ ہونے والے جوانوں پر زور دیا کہ وہ اپنے افسران بالا کا ہر قانونی حکم مانیں اور صرف قانون کی پاسداری کو اپنا شعار بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس میں بہت بہتری آئی ہے لیکن ابھی بہتری کی مزید گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے جب جرائم میں کمی کے اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں تو ان میں بتایا گیا ہوتا ہے کہ پہلے کی نسبت جرائم میں بہت کمی آئی ہے اور امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہوئی ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔

مجھے کرائم ریٹ زیرو چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے ملک میں روز دھماکے ہوتے تھے اور امن و امان کی صورتحال خراب تھی لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی تھی اور صرف باتیں کی جاتی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ریپڈ رسپانس فورس کے تحت 409 جوان دہشت گردی کے خلاف لڑائی کے لئے خصوصی طور پر تربیت یافتہ ہوں گے۔ 447 کا دوسرا دستہ بھی جلد تیار ہوگا، انہیں رہائش کی بہترین سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

اگر خزانہ میرے بس میں ہو تو ان کے لئے مزید مراعات کا اعلان کروں کیونکہ میں پولیس کے جوانوں کو دن اور رات کے کڑے وقتوں میں سینہ سپر دیکھتا ہوں۔ یہ سڑکوں، گلیوں اور چوراہوں پر مستعد اور فعال ہوتے ہیں اور ان کے جاگنے کی بدولت عوام چین کی نیند سوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے ہمت، جوانمردی اور اپنی جانوں کے نذرانے دے کر دہشت گردوں کا مقابلہ کیا، پولیس کے شہداء اور غازیوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

انہوں نے قربانیاں دے کر پولیس اور پاکستان کی عزت و وقار میں اضافہ کیا ہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ شہداء کے ان خاندانوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس ملک میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن و امان کے قیام کے لئے اپنے بچوں کی قربانی دی۔ انہوں نے پاس آئوٹ ہونے والے جوانوں پر زور دیا کہ وہ سینہ سپر رہیں اور عوام کو انصاف کی فراہمی کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں، عوام سے اچھے انداز سے پیش آئیں اور ملک دشمنوں، قبضہ گروپوں اور امن خراب کرنے والوں کے لئے زمین تنگ کر دیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کا ایک جوان، ایک ایس ایچ او، ایک ایس پی بھی چاہے تو حالات میں بہتری لا سکتا ہے۔ کسی مظلوم کا ساتھ دیں گے اور ظالم کا ہاتھ روکیں گے تو الله بھی راضی ہوگا اور دنیا میں نام اور آخرت میں اپنے لئے آرام حاصل کریں گے۔ انہوں نے جوانوں پر زور دیا کہ وہ حرام سے بچیں اور رزق حلال کا راستہ اختیار کریں کیونکہ نیک نیتی اور رزق حلال میں سکون ہے۔

انہوں نے ریپڈ رسپانس فورس کے جوانوں پر زور دیا کہ وہ زیادہ پرعزم انداز سے اپنا کنٹرول قائم کریں تاکہ کوئی دہشت گرد شہر میں داخل نہ ہو سکے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ انہوں نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے کہہ کر فوج کو ریپڈ رسپانس فورس کے طور پر تھرڈ لائن پر تعینات کروایا تھا۔ اب ریپڈ رسپانس فورس کی تشکیل کے بعد یہ فورس ان کی جگہ تعینات کی جائے گی۔

انہوں نے امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خلاف فرائض کی بجا آوری پر پاک فوج اور رینجرز کے جوانوں کو بھی خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ انہوں نے اسلام آباد کو پرامن اور پرسکون بنانے کے لئے کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے پولیس پر زور دیا کہ وہ بھی رینجرز کے ڈسپلن اور معیار کو اپنے لئے مثال بنائے۔ انہوں نے ریپڈ رسپانس فورس کی اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تربیت کے معیار کو سراہا۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ماضی میں غیر ملکی ہوٹل پر حملے اور کچہری پر حملے سمیت دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات ہوئے لیکن حکومت نے ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ میری درخواست پر سابق آرمی چیف نے انٹرنل سیکورٹی ڈیوٹی کے لئے ملک بھر میں 34 ہزار جوانوں کو تعینات کیا جن کی تعداد اب 10 ہزار کے قریب رہ گئی ہے، ان کو بھی ریلیز کیا جائے گا اور ان کی جگہ ریپڈ رسپانس فورس کے دستے ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔

سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ کے بعد بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے دبائو کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میرے اوپر کوئی دبائو نہیں، جس دن میرے اوپر ضمیر کا دبائو ہوگا اس دن میں دبائو محسوس کروں گا۔ جن کے پلے ہی کچھ نہیں ان کا مجھ پر کیا دبائو ہوگا۔ وزیر داخلہ کے کانوائے میں امریکی گاڑیوں کے گھسنے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ میرا نہ کوئی کانوائے ہوتا ہے اور نہ کوئی قافلہ، میں گذر رہا تھا کہ اس دوران میں نے کانوائے کو دیکھا جو رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گذر رہا تھا۔

یہ تین چار گاڑیوں کا قافلہ تھا جس پر میں نے پولیس سے بازپرس کی۔ جو بھی رولز کی خلاف ورزی کرے گا اس سے باز پرس کی جائے گی اور اس پر کارروائی ہوگی۔ اس واقعہ پر متعلقہ سفارت خانے کو خط بھیجا جائے گا۔ ڈپلومیٹس کے لئے قوانین میں گنجائش ہوتی ہے لیکن رولز کی خلاف ورزی پر انہیں ڈپلومیٹک کور حاصل نہیں رہے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر آئندہ ہمارے قوانین کی خلاف ورزی کی گئی تو قانون کی طاقت سے اسے روکا جائے گا۔

ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ایبٹ آباد کے واقعہ کے بعد اپوزیشن نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلوایا تھا۔ حکومت تو کچھ نہیں کرنا چاہتی تھی، اپوزیشن کے مطالبہ پر کمیشن بنایا گیا۔ سینکڑوں میل دور سے آ کر ہماری آزادی اور خودمختاری کو چیلنج کیا گیا اور ایک شخص کو اٹھا کر لے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر کوئی بڑی آنچ نہیں آئی۔

اس واقعہ پر کمیشن بنا، آج جو لوگ کمیشن کی رپورٹوں کی بات کر رہے ہیں ان کی اپنی حیثیت قوم کے سامنے آنی چاہئے، انہیں یہ ساری رپورٹیں بھول گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے کابینہ میں مطالبہ کروں گا کہ اس رپورٹ کو پبلک کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما کے بیانات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ جو عجیب انداز کی اردو بولتے ہیں اور جنہیں گا، گی اور مذکر مونث کے فرق کا بھی نہیں پتا، وہ گرجتے، برستے، چیختے اور چلاتے ہیں کیونکہ شاید ان کے کان میں کسی نے ڈال دیا ہے کہ اگر وہ عمران خان کی طرح کا سٹائل اپنائیں گے تو ان کی ڈوبتی کشتی کو سہارا ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ جو پاناما پاناما کرتے ہیں، ان کی والدہ کا نام بھی پاناما لیکس میں ہے اور وہ دوسروں پر انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ بھی اپنی صفائی دینے سپریم کورٹ میں جائیں کیونکہ جن پر وہ الزام لگاتے ہیں وہ تو عدالت میں چلے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں کرپشن کے حوالے سے جن کا گھنائونا کردار ہے، وہ بھی باتیں کر رہے ہیں۔

کیا وہ سرے محل، دبئی کے محلات، فرانس کی دولت، 60 ملین ڈالر کا کیس، ہیروں کے ہار کا قصہ بھول گئے ہیں اور کیا انہیں سوئس کیسز میں ہونے والی سزا یاد نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یو کے میں ہمارا ہائی کمشنر وین میں بھر کر دستاویزات جمع کر کے جا کر زرداری کو پیش کرتا رہا۔ ان کی کرپشن پر عجب کرپشن کی غضب کہانی کے عنوان سے ہر روز پروگرام نشر ہوتے تھے اور یہ ان کا جواب تک نہیں دیتے تھے۔

آج وہ کرپشن کے خلاف مہم چلانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا کرپشن کے خلاف مہم چلانے کا اعلان ایسے ہی ہے جیسے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) مسلمانوں کے حقوق کے لئے مہم چلانے کا اعلان کرے۔ انہوں نے کہا کہ جس دن سے زرداری سیاست میں آئے ہیں انہوں نے کرپشن کے خلاف ایک بھی لفظ نہیں بولا اور جس اصول پر وہ پہلے دن سے عمل پیرا ہیں، اس پر آج تک کاربند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری خزانے سے تنخواہ لینے والے ان کے ڈھنڈورچی کا کام ہی میرے خلاف اوٹ پٹانگ باتیں کرنا ہے۔ سندھ میں ایک ایماندار آئی جی کا کیا حال کیا گیا، آئی جی کو جبری رخصت پر بھجوایا گیا جو کہ ایک ایماندار آفیسر ہیں اور ان کی وجہ سے حالات میں بہت بہتری آئی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بیرون ملک الطاف کالیا پکڑا گیا تو میں نے ایف آئی اے کو یہاں جھنجوڑا کہ وہ پاکستانی ہے اور اس کا لین دین یہاں سے ہوا ہے اس لئے اس کی تحقیقات کریں۔

2008ء میں اس کے خلاف کچھ تفتیش ہوئی لیکن پھر یہ معاملہ دبا دیا گیا۔ میں نے بعد ازاں اس کی انکوائری کرائی تو کچھ چیزیں میرے سامنے آئیں جو انتہائی تشویشناک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں اس کی انکوائری پر پردہ ڈالا گیا، یہاں سے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی جس میں حکومت کے لوگ شامل تھے اور حکومت میں شامل لوگوں کے کہنے پر سارا ریکارڈ ضائع کیا گیا جس کو میں تلاش کروا رہا ہوں۔

بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ کی تحقیقات کی جائے گی اور دیکھا جائے گا کہ کون کون اس میں ملوث تھا اور اس وقت کی حکومت نے کس طرح اس کا ریکارڈ ضائع کیا۔ ایک دو ہفتے میں اس حوالے سے پیشرفت ہوگی۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ احتساب کرنے والا ادارہ نہیں ہے، احتساب کرنے والا ادارہ نیب ہے۔ ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوئے تو میں نے کہا تھا کہ احتساب کرنا رینجرز کا کام نہیں، اس کے بعد ڈاکٹر عاصم کو نیب کے حوالے کیا گیا، ایف آئی اے نیب کی ہدایت پر اپنا فیڈ بیک دیتی ہے۔

ہم نیب کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے۔ رحمان بھولا کے حوالے سے سوال پر وزیر داخلہ نے کہا کہ رحمان بھولا والا واقعہ بہت بڑا ہے، یہ اتنا بڑا جرم ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ غریب لوگوں کو پیسے کی خاطر زندہ جلا دیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد بھولا بھاگ گیا تھا۔ وزارت داخلہ نے اس کا پیچھا کیا اور بنکاک میں اس کا سراغ لگایا اور تھائی لینڈ کی حکومت کے ساتھ مل کر اس کو وہاں سے پکڑوایا گیا اور اسے یہاں لے کر آئے۔

اس سے معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے میڈیا پر زور دیا کہ وہ ملک کی لوٹ مار اور کرپشن کے کیسوں میں پیشرفت کا تعاقب کرے تاکہ عوام کے سامنے صحیح معلومات آ سکیں۔ قبل ازیں وزیر داخلہ نے پریڈ کا معائنہ کیا۔ وزیر داخلہ کو ریپڈ رسپانس فورس کے چاق و چوبند دستوں نے سلامی دی۔ آئی جی پولیس طارق مسعود یاسین نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔