کپاس کے کیڑوںکا خاتمہ کے لئے نجی شعبہ لاتعلق ،کسی فیکٹری کی لیبارٹر ی موجود نہیں ، گلابی سنڈی سے 61فیصد نقصان

زرعی ماہرین کا فصلوں کو نقصان سے بچانے کے لئے نجی شعبہ کا فعال ہونا ضروری قرار ،گلابی سنڈی پنجاب میں موجود ہے کاشتکاروں اور فیکٹری مالکان کا مہلک کیڑوں کا مقابلہ کرنے کے لئے محکمہ زراعت پر غیر معمولی انحصار،نجی سطح پر حکمت عملی صفر دنیا بھر میں کپاس کی فصل کو نقصان پہنچانے والا کیڑا پنجاب میں موجود ،مقابلہ صرف سرکاری سطح پر ہوگا ،محکمہ زراعت ہوشیار جنوری میںکیڑے دوسری فصلوں میں چھپ جاتے ہیں ،سیکرٹری زراعت محمد محمود کے کئی مشاورتی دور ، لائحہ عمل مرتب ، ذرائع کپاس کے خطرناک کیڑوں کے خاتمہ کا سرکاری سطح پر مفت فراہم کئے جانے والے کیڑے کرائی سو پر لا پر انحصار ہوگا ،ذرائع گلابی سنڈی کی طویل تاریخ ، حملہ کا طریقہ کا رانتہائی خطرناک ، ماہرین اور سائنسدانوں کی بریفنگ ،’’این این آئی ‘‘کی تحقیقاتی پورٹ

اتوار 1 جنوری 2017 12:30

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 جنوری2017ء) پاکستان کی چاندی کپاس کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے نجی شعبہ کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے ، کپاس کو کیڑوں سے بچانے کے لئے نجی سطح پر کسی فیکٹری کی لیبارٹری موجود نہیں اور سارا انحصار محکمہ زراعت کی لیبارٹریز پر ہی کیا جاتا ہے ،گزشتہ سال بھی نجی شعبہ کے عدم تعاون کی وجہ سے کپاس کی فصل سخت متاثر ہوئی اور کپاس کے کسان کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ، کپاس کو نقصان پہچانے والے بارہ کیڑوں میں سے مہلک کیڑا گلابی سنڈی ہے ،گلابی سنڈی کی ابتداء مشرقی بحیرہ ہند کے علاقہ سے ہوئی۔

یہاں سے دنیا کے بہت سے کپاس اگانے والے ممالک میں پھیل گئی۔ 1920ء کی دہائی میں جنوبی امریکہ کی ریاستوں میں جاپہنچی ۔ اب یہ امریکہ ، افریقہ ، ایشیا اور آسٹریلیا کے ٹراپیکل ایریاز میں پھیل چکی ہے ۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ سب ٹراپیکل ایریاز ، پاکستان ، مصر، یو ایس اے اور میکسیکو میں بھی پائی جاتی ہے ۔ گلابی سنڈی پوری دنیا میں کپاس کی فصل پر حملہ کرتی ہے ۔

ایشیا ، شمالی امریکہ اور جنوبی امریکہ میں گلابی سنڈی کی حیثیت مرکزی پیسٹ کی ہے ۔ افریقہ ، یورپ اور روس میں اس کو اہم معاشی پیسٹ تصور کیا جاتا ہے یہ کیڑا کپاس میں 10تا 20.2فیصد تک پیداوار میں کمی کا باعث بنتا ہے (ڈارلنگ 1951ء ایگروال اور کیٹ آر 1979ء )۔ یہ پیسٹ 17تا 20فیصد روئی کی کوالٹی خراب کرتا ہے (لیو وغیرہ 1986ء )شواٹنر نے 1983ء میں امریکہ میں اندازہ لگایا کہ اگر گلابی سنڈی کو کنٹرول نہ کیا جائے تو یہ 61فیصد فصل کا نقصان کرتی ہے ۔

(فیرز بی 1989ء )نے بتایا کہ گلابی سنڈی کے نقصان کی معاشی حد 5تا 15فیصد متاثرہ ٹینڈے ہوتی ہے ۔گلابی سنڈی کپاس کوصرف سنڈی کی حالت میں نقصان پہنچاتی ہے۔سب سے پہلے سنڈی ڈوڈیوں پر حملہ آور ہوتی ہے۔ سنڈی پھول میں داخل ہو کر اس کی پتیوں کے سروں کو اپنے منہ سے نکلنے والے لعاب سے خوبصورتی سے بند کر لیتی ہے جس سے وہ مدھانی نما شکل اختیار کرلیتے ہیں لیکن جب فصل پر ٹینڈے بنتے ہیں تو یہ چھوٹے نرم ٹینڈوں میں سوراخ کر کے داخل ہوجاتی ہے اور اندر ہی اندربیجوں کو کھاتی رہتی ہے۔

ٹینڈے میں سوراخ بند ہوجاتا ہے۔ متاثرہ ٹینڈا نرم ہو جاتا ہے۔ بالغ گہرے بھورے رنگ کا چھوٹا سا پروانہ ہوتا ہے۔ اس کے اگلے پر مٹیالے سے ہوتے ہیں۔پچھلے پر چمکیلے سرمئی جھالر نما ہوتے ہیں تازہ انڈے کا رنگ سفید ہو تا ہے جو بعد میں بھورا ہو جاتاہے ۔ اس کی مادہ 100سی250 انڈے ایک ایک کر کے پتوں، کلیوں، پھولوں اور ٹینڈوں وغیرہ پر دیتی ہے۔اسی طرح سفید مکھی اور ملی بگ بھی کپاس کی فصل کو انتہائی نقصان پہنچاتے ہیں ان کار استہ روکنے کے لئے نجی شعبہ کے پاس حکمت عملی نہیں ہے اور محکمہ زراعت کی گیارہ لیبارٹریز پر ہی سارا انحصار کرنا پڑتا ہے ،محکمہ زراعت پنجاب نے کپاس کی پیداوار بہتر بنانے کے لئے آف سیزن مینجمنٹ فارمولہ پر عمل درآمد شرو ع کردیا ہے ، حالیہ دنوں میں کپاس کی پیداوار بہتر بنانے کے لئے سفید مکھی اور گلابی سنڈی پر قابو پانے کے لئے لائحہ عمل مرتب کیا جارہا ہے ،اس حوالے سے محکمہ زراعت کی لیبارٹریز دن رات کام کررہی ہیں ،پنجاب کی45تحصیلوں میں نمائشی پلاٹ لگائے جارہے ہیں ،زرعی ادویات بنانے والی ہرکمپنی کو ایک تحصیل دی گئی ہے تاکہ وہ اپنی کارکردگی ثابت کرسکے،کاٹن سٹک کوختم کرنے کے لئے پندرا جنوری تک ہل چلانے کی ہدایت کی گئی ہے ، کپاس کی باقیات کو بھٹہ خشت مالکان کوفراہم کیا جارہا ہے تاکہ خطر ناک کیڑوں کے انڈے اور بچے آگ میں تلف ہوجائیں،کیڑوں کے انڈوں اور بچوں سے کو ختم کرنے کے لئے کپاس کی باقیات کو کپاس پیدا کرنے والے علاقوں سے دور لے جایا جارہاہے ، ذرائع کے مطابق اس فارمولے پرعمل کرتے ہوئے اعلی معیارکے بیج کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اوراس حوالے سے سیکرٹری زراعت محمد محمود نے ماہرین اور کاشتکارنمائندوں سے مشاورتی کے کئی دور کئے ہیں ،ذرائع نے مزید بتایاکہ موسمیاتی تبدیلوں سے بھی کپاس کی فصل کونقصان پہنچاہے اس حوالے سے ماہرین نے موسمیاتی تبدیلوں کے کپاس پراثرات کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ آئندہ ان اثرات سے کپاس کو محفوظ بنایا جاسکے محکمہ زراعت کی گیارہ لیبارٹریاں دوست کیڑے بنانے میں مصروف ہیں ،جنہیں سٹور کیا جارہا ہے تاکہ دشمن کیڑوں کے حملہ کے موقع پر دوست کیڑوں کو استعمال کیا جاسکے

متعلقہ عنوان :