دوسروں کو بدنام کرنے والے اب ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں یہ عناصر اپنی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے ایسا کر رہے ہیں،سوشل میڈیا پر حالیہ مہم کا مقصد کچھ ادار وں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ناہے ‘ ثاقب نثار کی لاہور ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی چیف جسٹس ہائیکورٹ کی سفارش پر ہوئی اور اس میں چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت بھی شامل تھی کیونکہ الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کے بعد ایگزیکٹو پر چیف جسٹس کی ایڈوائس لازمی تھی ،ِآئین میں واضح ہے کہ سپریم کورٹ کا سینئر ترین جج چیف جسٹس ہو گا اس میں وزیر اعظم یا حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے کسی اور شخص کی بطور چیف جسٹس تعیناتی غیر آئینی ہوتی ہیِ ،سینئر ترین جج کا چیف جسٹس بننا آئین کے مطابق ہے،وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کا بیان

اتوار 1 جنوری 2017 20:40

دوسروں کو بدنام کرنے والے اب ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو بھی نشانہ بنا رہے ..

سیالکوٹ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 01 جنوری2017ء) وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر حالیہ مہم کا مقصد کچھ ادار وں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ناہے ‘ دوسروں کو بدنام کرنے والے اب ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں ‘ جسٹس ثاقب نثار کی بطور سیکرٹری قانون تعیناتی تین وجوہات کی بناء پر کی گئی تھی۔

اتوار کو اپنے ایک بیان میں خواجہ آصف نیکہا کہ دوسروں کو بدنام کرنے والے اب ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ عناصر اپنی موجودگی کا احساس دلانے کیلئے ایسا کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر حالیہ مہم کا مقصد کچھ اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں چیف جسٹس سینئر ترین جج تعینات ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

18 ویں ترمیم ‘ الجہاد ٹرسٹ اور سجاد علی شاہ کیس میں یہ طے ہو چکا ہے ۔

وزیر پانی و بجلی نے کہا کہ سینئر ترین جج کا چیف جسٹس بننا آئین کے مطابق ہے۔ سینئر ترین جج کی جگہ کسی اور جج کا تقرر آئین کی خلاف ورزی ہوتا ہے۔ بلاشبہ جسٹس ثاقب نثار سیکرٹری قانون رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ جسٹس ثاقب نثار کی بطور سیکرٹری قانون تعیناتی کی تین وجوہات پر کی گئی تھی ۔ الجہاد کیس میں کہا گیا تھا کہ ججز کو ایسے عہدوں پر تعینات نہ کیا جائے اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے سیکرٹری قانون کی تعیناتی کیلئے جج کی فراہمی سے معذرت کی تھی۔

اس وقت کے وزیر قانون خالد انور نے ان کا سیکرٹری قانون کے طور پر انتخاب کیا۔ خواجہ اصف نے کہاکہ ثاقب نثار کی لاہور ہائی کورٹ میں بطور جج تعیناتی چیف جسٹس ہائیکورٹ کی سفارش پر ہوئی اور اس میں چیف جسٹس آف پاکستان کی مشاورت بھی شامل تھی کیونکہ الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کے بعد ایگزیکٹو پر چیف جسٹس کی ایڈوائس لازمی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس ثاقب نثار کی ہائی کورٹ میں مستقلی صدر مشرف نے چیف جسٹس کی مشاورت سے کی اور انہیں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ایڈوائس پر سپریم کورٹ تعینات کیا گیا۔

یہ تعیناتی صدر آصف علی زرداری نے افتخار چوہدری کی سفارش پر کی تھی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اس حلف برداری پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے آزاد عدلیہ کیلئے ان کی خدمات کو سراہا گیا کہ جسٹس ثاقب نثار کو میرٹ پر قانون کے مطابق چیف جسٹس تعینات کیا گیا ہے۔ خواجہ آصف نے کہاکہ آئین میں واضح ہے کہ سپریم کورٹ کا سینئر ترین جج چیف جسٹس ہو گا اس میں وزیر اعظم یا حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے کسی اور شخص کی بطور چیف جسٹس تعیناتی غیر آئینی ہوتی ہے۔