سپریم کورٹ میں پاناما لیکس درخواستوں پرسماعت

عدالت کا پاناما لیکس کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پرکرنے کا فیصلہ

Fahad Shabbir فہد شبیر بدھ 4 جنوری 2017 10:08

سپریم کورٹ میں پاناما لیکس درخواستوں پرسماعت

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔4جنوری۔2017ء) سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کیس کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ سماعت کررہا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان،جسٹس عظمت سعید شیخ،جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس گلزار احمد بنچ میں شامل ہیں۔ سماعت شروع ہوتے ہی جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیس میں کسی صورت میں التوا نہیں دیں گے۔

پانامہ لیکس کیس کی سماعت روزانہ کی بنیادوں‌پر کریں‌ گے۔ اس موقع پر درخواست گزار طارق اسد نے کہا کہ عمران خان کے احتجاج سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے۔ عمران خان کا نام بھی پاناما لیکس میں شامل ہے۔ تمام افراد کیخلاف تحقیقات کی جائیں۔ اس موقع پر طارق اسد نے سپریم کورٹ سے معاملےکی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا۔

(جاری ہے)

بعد ازاں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا گیا۔ نعیم بخاری نے اس موقع پر وزیر اعظم نواز شریف کی 4 اپریل کی تقریر کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ آج تک میڈیا سے مقدمے کے حوالے سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ جس پر جسٹس عظمت شیخ نے نعیم بخاری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا سےنہیں عدالت سےمخاطب ہوا کریں۔اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا نیا بینچ بنایا گیا ہے۔

تمام دستاویزات کا جائزہ لیں گے۔ نعیم بخاری نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالت کےحالیہ بینچ پر کوئی اعتراض نہیں۔ جس پر جسٹس عظمت شیخ نے کہا کہ اگر آپ کو بینچ پر کوئی اعتراض نہیں تو میڈیا پر بیان بازی پر گریز کریں۔ جواب میں نعیم بخاری نے کہا کہ میں نےنئے بینچ سے متعلق میڈیا پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال اُٹھایا کہ نواز شریف کی تقریر میں دبئی فیکٹری کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔

نوازشریف کی جو تقریر جو آپ پڑھ رہے ہیں اس کی مطابقت بھی واضع کریں۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ نواز شریف نے کہا سعودی عرب ،دبئی میں سرمایہ کاری کے ثبوت موجود ہیں۔ نواز شریف نے غلط بیانی کی وہ صادق اور امین نہیں رہے، نااہل قراردیا جائے۔حکومت نے آئی سی آئی جے کے دستاویزات کی تردید نہیں کی۔اس موقع پر نعیم بخاری نے طارق شفیع کا حلف نامہ جعلی قرار دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ حلف نامے اور شیئرز کی فروخت کے کاغذات میں کئے گئے دستخط میں فرق ہے۔ مریم نواز آج بھی اپنے والد کے زیر کفالت ہیں۔آئی سی آئی جےکی دستاویزات کو ابھی تک چیلنج نہیں کیا گیا۔ اس موقع پر جسٹس گلزار احمد نے سوال اُٹھایا کہ دستاویزات اور رپورٹس کی قانونی حیثیت کیا ہے۔ جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ تمام دستاویزات اوررپورٹس عملی سطح پرجاری ہوئیں۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ آپ کا انحصار وزیر اعظم کی 2تقریورں پر ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے نعیم بخاری سے سوال پوچھا کہ کیا آپ کے پاس وزیراعظم کے دستخط شدہ دستاویز ہیں؟۔جس پر نعیم بخاری نے اعتراف کیا کہ وزیر اعظم کےدستخط شدہ کوئی دستاویز نہیں۔ نعیم بخاری نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نےکہا جدہ اسٹیل مل کی فروخت سے لندن فلیٹس لئے۔ شریف خاندان کی دبئی میں سرمایہ کاری بے نامی تھی۔

دبئی فیکٹری کے 75 فیصد شیئرز 1978 میں فروخت کر دیئے گئے۔ریکارڈ کے مطابق دبئی کے 25 فیصد شیئرز 1980میں فروخت کئے گئے۔جائیدادیں منی لانڈرنگ کے ذریعے بنائی گئیں۔ شریف فیملی کی جانب سے بینک ٹرانزیکشن کا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا۔وزیراعظم کے خطاب میں قطری سرمایہ کاری کا کوئی ذکر نہیں۔گلف اسٹیل مل نقصان میں فروخت ہوئی۔ مریم حسن اور حسین نواز نے بھی غلط بیانی کی ہے۔

وزیر اعظم ٹیکس چوری کے مرتکب ہوئے ہیں۔ عدالت ایف بی آر کو ٹیکس ریکوری کا حکم دے۔ ٹیکس چوری کی وجہ سے وزیر اعظم اس عہدے کے اہل نہیں۔چیئرمین نیب اپنے فرائض کی ادائیگی میں ناکام رہے۔چیئرمین نیب نےشریف خاندان کیخلاف ہائیکورٹ کے حوالے سے اپیل نہیں کی۔جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین نیب اپنا جواب جمع کرا چکے ہیں ۔ نیب نے اس حوالے جواب میں کوئی بات نہیں کی۔

جس پر نعیم بخاری نے عدالت سے استدعا کی کہ چیئرمین نیب کو تاخیر سے اپیل جمع کرانے کا حکم دیا جائے۔ جسٹس کھوسہ نے جوابا کہا کہ چیئرمین نیب کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ نیب اور ایف آئی اے نے کہا کہ معاملہ ان کے دائرہ اختیار میں نہیں ۔نعیم بخاری نے مزید کہا کہ حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے التوفیق کمپنی نے لندن میں مقدمے دائر کیا۔