بھارت نے زمینی حقائق تسلیم نہ کئے تو کشمیر کے حالات انتہائی تباہ کن رخ اختیار کرسکتے ہیں، بھارتی وفد کی رپورٹ

جب تک بنیادی مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، کشمیر میں قتل و غارت اورتباہی میں اضافہ ہوتا جائے گا ،ْ گفتگو

اتوار 8 جنوری 2017 17:20

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 جنوری2017ء) بھارت کے سابق وزیرخارجہ یشونت سنہاکی زیر قیادت وفد نے خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے زمینی حقائق کا ادراک نہ کیاتو 2017اور2018میںجموں وکشمیر کے حالات تباہ کن رخ اختیار کرسکتے ہیں۔ کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق وفد نے حالیہ احتجاجی تحریک کے دوران دو بار کشمیر کا دورہ کیا اور گرشتہ روز اپنی تفصیلی رپورٹ جاری کردی۔

رپورٹ میں کہاگیا کہ کشمیریوں کواس بات کا پکا یقین ہے کہ مقامی بھارت نواز سیاستدان مسئلہ کشمیر حل کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے اور اگر بھارت نے زمینی حقائق تسلیم نہ کئے تو 2017اور2018ء میں حالات تباہ کن صورتحال اختیار کرسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پتھرائو اور احتجاجی مظاہروں میں ٹھہرائو عارضی ہے اور آئندہ وقت میں صورتحال اس سے بھی بدتر ہوسکتی ہے۔

(جاری ہے)

یشونت سنہا،سابق چیف انفارمیشن کمشنروجاہت حبیب اللہ،سابق ائر وائس مارشل کپل کاک، سینئر صحافی بھارت بھوشن، سینٹر فار ڈائیلاگ اینڈ ری کنسلی ایشن کے ایگزیکٹو پروگرام ڈائریکٹر سشوبا بھاروے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کشمیری یہ یقین رکھتے ہیں کہ بھارت کشمیر کو ایک سیاسی مسئلہ تسلیم کرنے سے ہی انکار کررہا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ہم جس کسی کشمیری سے بھی ملے ، اس نے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہا کہ جب تک بنیادی مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا، کشمیر میں قتل و غارت اورتباہی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

رپورٹ میں کہا گیاکہ کشمیری بھارت پر اعتماد نہیں کرتے اور عدم اعتماد بڑھتا ہی جارہا ہے جبکہ کچھ کشمیری سمجھتے ہیں کہ بھارت کشمیر کوقوم سلامتی کی عینک سے دیکھ رہا ہے اوربھارت کی طرف سے مسلسل امتیازی سلوک کا احساس کشمیریوں میں سرایت کرگیا ہے۔رپورٹ کے مطابق کشمیریوں کا کہنا ہے کہ ان کے مظاہرے نہ کسی کے کہنے پرہیں اور نہ ان کے نوجوان پیسے کے لیے ایسا کررہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کشمیریوں میں ایک عجیب قسم کا خدشہ پایا جارہا ہے کہ موسم بہار میں کچھ ہونے والا ہے تاہم اپریل 2017ء کے بعد جو کچھ بھی ہوگا اس کی شدت اور وسعت بہت زیادہ ہوگی۔2008اور2010 کی تحریکیں کم شدت کی تھیں ،2016ء کی شدت ان سے کچھ زیادہ تھی اوراگر بھارت نے صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے اقدامات نہ کئے تو 2017ء اور 2018ء کی صورتحال بھارت کے لیے تباہ کن ہوگی۔

کشمیری سمجھتے ہیں کہ مقامی بھارت نواز سیاسی جماعتیں مسئلہ کشمیر حل کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتیں اور تمام فریقین یعنی بھارت ، پاکستان اور کشمیری عوام مل کر ہی اس مسئلے کو حل کرسکتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا اگر بھارت عارضی طور پر امن قائم کرنا چاہتا ہے تو اسے کالے قوانین کے خاتمے کے ساتھ قائم کیا جاسکتا ہے۔اس قدم سے جذبات ٹھندا کرنے میں مدد مل سکتی ہے لیکن کشمیریوں کے مطابق یہ مستقل حل نہیں ہوسکتا۔

رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری،مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے بھارت اور کشمیریوں اور بھارت اور پاکستان کے درمیان کثیرالجہتی مذاکرات شروع کرنے اور بھارت کی سول سوسائٹی اور کشمیریوں کے درمیان روابط بڑھانے کے لیے ادارہ جاتی عمل شروع کرنے کی فور ی ضرورت ہے ۔

متعلقہ عنوان :