روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم کی آزادانہ تحقیقات ہونی چاہئیں،اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار برائے میانمار یانگھی لی نے تفتیش شروع کردی،حکمراں جماعت کا ملاقات سے انکار

ہفتہ 14 جنوری 2017 11:54

ینگون(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 جنوری2017ء) اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار برائے میانمار یانگھی لی شورش زدہ صوبے راکھین پہنچ گئیں، جہاں وہ ملکی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے روہنگیا مسلمانوں پر مبینہ ظلم و ستم کی چھان بین کریں گی۔میڈیارپورٹس کے مطابق سفارتی ذرائع نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار برائے میانمار یانگھی لی اپنے بارہ روزہ دورے کے دوران روہنگیا مسلم برادری پر بڑھتے ہوئے تشدد کی چھان بین کرنے کے بعد ایک رپورٹ مرتب کریں گی۔

انہیں بدھ بنیاد پرستوں سے خطرات لاحق ہیں جبکہ ان کے گزشتہ دورہ میانمار کے دوران انہی بنیاد پرستوں نے لی کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ لی کی طرف سے روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر تشویش کے اظہار پر انہیں اس ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

(جاری ہے)

میانمار بالخصوص راکھین میں روہنگیا مسلمان کمیونٹی کو مبینہ فوجی کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ بنگلہ دیش فرار ہونے والے روہنگیا افراد نے بتایا کہ ملکی فوجی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں جبکہ مردوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق ان روہنگیا مسلمانوں نے یہ بھی بتایا کہ راکھین میں ان کی املاک کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق انہی پرتشدد کارروائیوں کے باعث کم ازکم 65 ہزار روہنگیا باشندے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور بھی ہو چکے ہیں۔ادھرراکھین صوبے میں حکمران سیاسی جماعت اے این سی سے وابستہ سنیئر سیاستدان نے بتایا کہ ان کی جماعت کا کوئی بھی رکن لی سے نہیں ملے گا، ’انہوں نے ہم سے ملنے کی پیشکش کی ہے لیکن ہمارا ان سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

یہ سیاستدان ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ روہنگیا کمیونٹی کے کسی بھی فرد کو میانمار کی شہریت نہیں دی جانا چاہیے۔ وہ اصرار کرتے ہیں کہ پارلیمان کی سطح پر کی جانے والی ایسی کسی بھی کوشش کی سخت مخالفت کی جائے گی۔ اقوام متحدہ کی خصوصی رابطہ کار برائے میانمار یانگھی لی نے راکھین کی صورتحال کو ’ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اس صوبے میں مسلمان اقلیت کے ساتھ جنسی زیادتی، قتل، ظلم و ستم اور لوٹ مار کے الزامات کی آزادانہ طور پر تحقیقات کرائی جانا چاہییں۔ میانمار روانہ ہونے سے قبل اس خاتون سفارت کار نے کہا کہ راکھین کی صورتحال ابتر ہو رہی ہے اور اس تناظر میں عالمی برادری کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ عنوان :