سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں میاں شریف کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات طلب کر لیں- متعلقہ با اختیار فورم موجود ہے تو اس کے مقدمات ہم کیوں سنیں، دیگر ادارے بھی ریاست نے آئین کے مطابق بنائے ہیں۔ سپریم کورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 25 جنوری 2017 12:04

سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں میاں شریف کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کی ..

ا سلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25جنوری۔2017ء) سپریم کورٹ نے پاناما کیس میں وزیر اعظم کے وکیل سے میاں شریف کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔پاناما لیکس سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ کر رہا ہے۔سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ مریم صفدر کی جانب سے جواب داخل کروا دیا ہے جس پر میرے دستخط ہیں اور مریم صفدر نے مجھے اختیار دیا ہے۔

انہوں نے کہا اگر کوئی ٹیکس ریٹرن نہ جمع کرائے اسے 28 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے-جسٹس گلزار نے مریم صفدر کے وکیل سے استفسار کیا کہ میاں محمد شریف کی وفات کے بعد ان کی جائیداد کا کیا بنا؟ جس پر شاہد حامد نے کہا شریف خاندان میں اس حوالے سے کوئی جھگڑا یا تنازع نہیں۔

(جاری ہے)

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دو روز میں عدالت کو شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم سے متعلق آگاہ کیا جاسکے۔

شاہد حامد نے کہا کہ وزیراعظم نے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے، وزیراعظم ہو یا عام شہری، قانون سب کے لیے برابر ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جب ایک متعلقہ با اختیار فورم موجود ہے تو اس کے مقدمات ہم کیوں سنیں، دیگر ادارے بھی ریاست نے آئین کے مطابق بنائے ہیں۔ شاہد حامد نے کہا کہ عدالت ریفرنس خود سنے تو اس کی مرضی ہے، وزیراعظم کی نا اہلی کے لیے بھی ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ریفرنس پر فیصلہ دینے کا مکمل اختیار ہے ، اگر ریفرنس میں بھی یہی سوال اٹھایا گیا ہے تو سپریم کورٹ مداخلت کیوں کرے، سپریم کورٹ آرٹیکل 184/3 کے تحت متوازی کارروائی کیسے کر سکتی ہے؟جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیپٹن صفدر نے 2011 میں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروایا، ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے کا کیا نتیجہ ہو گا؟ شاہد حامد نے کہا کہ 2011 سے پہلے کیپٹن صفدر کی تنخواہ سے ٹیکس کٹوتی ہوتی تھی۔

جسٹس عظمت سعید نے استفسار کیا کہ کسی رکن اسمبلی کے لیے کیا طریقہ کار ہے؟ جس پر شاہد حامد نے کہا کہ منتخب نمائندے کی نااہلی کے لیے رٹ دائر کی جا سکتی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ پر الزام ہے کہ کیپٹن صفدر نے گوشواروں میں اہلیہ کے اثاثے چھپائے، جس پر شاہد حامد نے کہا کہ کیپٹن صفدر نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ مریم نواز کے گوشوارے منسلک کیے تھے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الزام ہے کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر کیپٹن صفدر ایماندار نہیں رہے، کیپٹن صفدر کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواءہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر کیا الیکشن کمیشن اور انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے کوئی اقدام نہیں کیا؟ شاہد حامد نے جواب دیا کہ ٹیکس کا معاملہ ایف بی آر کے دائرہ اختیار میں آتا ہے جبکہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ ہونے پر نااہلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن یہاں نااہلی یا ٹیکس چوری کا سوال نہیں ہے۔

شاہد حامد نے کہا کہ مریم نواز کی بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں،لندن فلیٹس ان کے بھائی حسین نواز کے ہیں۔ جسٹس آصف کھوسہ نے مریم نواز کے وکیل سے سوال کیاکہ کیا ممکن ہے کہ وراثتی جائداد کی تقسیم کے حوالے سے عدالت کو ایک دو روز میںآگاہ کیا جا سکے؟ جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ کسی رکن اسمبلی کے لیے کیا طریقہ کار ہے؟ منتخب نمائندے کی نا اہلی کے لیے کو وارنٹو کی رٹ دائر کی جا سکتی ہے۔

کیا سپریم کورٹ میں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض ہے؟ شاہد حامد نے کہا کہ میں تو عدالتی سوالوں کے جواب دے رہا ہوں۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ کیا اس بنیاد پر سپریم کورٹ کارروائی نہ کرے کہ معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر التوا ہے، فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے کہ معاملہ اس کے دائرہ اختیار میں آتا بھی ہے یا نہیں؟یوسف رضا گیلانی کے خلاف ریفرنس اسپیکر نے مسترد کیا تو معاملہ سپریم کورٹ آیا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دئیے کہ وزیراعظم کی نا اہلی کا کیس کس ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے؟ شاہد حامد نے جواب دیا کہ اسپیکر کے فیصلے کے خلاف اپیل لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے،ریفرنس الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔