امریکی عدالت نے ایئرپورٹ پر روکے گئے تارکین وطن کی بے دخلی روک دی

نیویارک کے جے ایف کے ہوائی اڈے کے باہر بڑی تعداد میں لوگوں کا احتجاجی مظاہرہ نیو یارک، واشنگٹن اور شکاگو سمیت کئی امریکی ہوائی اڈوں پر مظاہروں کے دوران 100 سے زائد افراد گرفتار

اتوار 29 جنوری 2017 11:40

امریکی عدالت نے ایئرپورٹ پر روکے گئے تارکین وطن کی بے دخلی روک دی

نیویارک /واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 29 جنوری2017ء) امریکی عدالت نے ایئرپورٹ پر روکے گئے تارکین وطن کی بے دخلی روک دی ۔امریکی میڈیا کے مطابق یہ حکم نیویارک کے علاقے بروکلین کی ایک عدالت نے جاری کیا۔امریکہ کے شہر نیویارک کی ایک عدالت نے صدر ٹرمپ کے اس حکم نامے پر عبوری طور پر عمل درآمد روک دیا ہے جس کے تحت سات مسلمان اکثریتی ممالک سے پناہ گزینوں کی امریکی آمد پر پابندی لگا دی گئی تھی۔

امریکی شہری آزادی کی تنظیم اے سی ایل یو نے ہفتے کے روز صدر کے حکم نامے کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔اے سی ایل یو نے کہا کہ جج کے سٹے آرڈر سے ان لوگوں کی ملک بدری رک گئی ہے جو اس حکم نامے کی 'زد' میں آ گئے تھے۔تنظیم کا اندازہ ہے کہ ایک سو سے دو سو تک لوگوں کو ہوائی اڈوں پر روک دیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

اس دوران سینکڑوں لوگوں نے مختلف امریکی ریاستوں میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امیگریشن کے بارے میں حکم نامے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

اس حکم نامے کے تحت، جس پر انھوں نے جمعے کو دستخط کیے تھے، امریکہ کا پناہ گزینوں کا پروگرام معطل کر دیا گیا تھا اور عراق، ایران، شام، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، اور یمن کے شہریوں کی امریکہ آمد پر 90 دن کی پابندی لگا دی تھی۔وہ لوگ جو اس دوران سفر کر رہے تھے، انھیں امریکہ آمد پر حراست میں لے لیا گیا تھا، چاہے ان کے پاس جائز ویزا اور دوسری دستاویزات ہی کیوں نہ ہوں۔

جج این ڈونیلی کے فیصلے کے بعد ان لوگوں کی ملک بدری رک گئی ہے جن کے پاس پناہ گزینی کی منظور شدہ درخواستیں، منظور شدہ ویزا، یا امریکہ میں داخلے کے لیے درکار دوسری قانونی دستاویزات موجود تھیں۔امیگرینٹس کے حقوق کی تنظیم آئی آر پروجیکٹ کے ڈپٹی لیگل ڈائریکٹر نے کہا کہ عدالت کے باہر جمع ایک ہجوم نے نعرے لگا کر اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔

انھوں نے کہا کہ خدشہ تھا کہ بعض لوگوں کو ہفتے کے روز جہاز میں بٹھا کر امریکہ بدر کر دیا جائے گا۔'مختصر الفاظ میں، جج نے بھانپ لیا کہ حکومت کیا کر رہی ہے اور جو ہم چاہتے تھے وہ ہمیں دے دیا۔ اور وہ تھا کہ ٹرمپ کے اس حکم کی معطلی اور حکومت کو اجازت نہ دینا کہ ملک بھر میں جو بھی اس حکم کی زد میں آیا ہے، اسے نکال باہر کر دیا جائے۔'انھوں نے ہجوم کو بتایا کہ جج نے حکومت سے کہا ہے کہ وہ ان لوگوں کے ناموں کی فہرست فراہم کرے جنھیں حراست میں لیا گیا ہے۔

'ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہر شخص کو قانونی مدد فراہم کی جائے اور اسے حراست سے نکال لیا جائے۔ اسے واپس خطرے میں نہیں بھیجا جائے گا۔'عدالت نے مقدمے کے لیے فروری کے آخر کی تاریخ رکھی ہے۔اے سی ایل یو کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اینتھونی رومیرو نے کہا کہ یہ یادگار دن ہے۔ 'جس دن انھوں نے ایگزیکیٹو آرڈر جاری کیا، ہم انھیں اسی دن عدالت میں لے گئے تھے کہ یہ غیرآئینی اور غیر امریکی قدم ہے، اور ان اقدار کی خلاف ورزی ہے جن کی ہم اس ملک میں ایک طویل عرصے سے پاسداری کرتے چلے آئے ہیں۔

امریکی میڈیا کا کہنا ہے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد 100 سے 200 افراد کو مختلف ایئرپورٹس پر روک لیا گیا تھا۔ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے پاکستان، افغانستان، ملائیشیا، عمان، تیونس اور ترکی امریکی پابندی سے متاثر نہیں ہوں گے جبکہ گرین کارڈ رکھنے والوں کو امریکا میں واپسی سے پہلے امریکی سفارتخانے یا قونصل خانے سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ادھر امریکا میں 7 مسلم ملکوں کے باشندوں پر سفری پابندی کے خلاف نیو یارک، واشنگٹن اور شکاگو سمیت کئی امریکی ہوائی اڈوں پر مظاہروں کے دوران 100 سے زائد افراد گرفتارکرلیے گئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :