سپریم کورٹ میں پاناماکیس پر سماعت‘نیب نے اسحاق ڈار کی معافی کا ریکارڈ اور نوازشریف کے وکیل نے جائیداد کی تقسیم کی تفصیل عدالت میں جمع کروادی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 30 جنوری 2017 12:42

سپریم کورٹ میں پاناماکیس پر سماعت‘نیب نے اسحاق ڈار کی معافی کا ریکارڈ ..

ا سلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30جنوری۔2017ء) سپریم کورٹ آف پاکستان میں جاری پاناما لیکس کی درخواستوں کی سماعت کے دوران قومی احتساب بیورو کی جانب سے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں اسحاق ڈار کی معافی سے متعلق طلب کیا گیا ریکارڈ عدالت میں جمع کروادیا گیا۔نیب ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اسحاق ڈار نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی تھی اور معافی مل جانے کے بعد وہ ملزم نہیں رہے۔

نیب کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے ریکارڈ میں بتایا گیا کہ اپریل 2000 میں اسحاق ڈار کی جانب سے معافی کی درخواست دی گئی جسے چیئرمین نیب نے 21 اپریل کو منظور کرلیا۔جس کے بعد 24 اپریل 2000 کو تحقیقاتی افسر نے بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست دی اور 25 اپریل کو اسحاق ڈار کا اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہوا۔

(جاری ہے)

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ کے سامنے دلائل دیتے ہوئے اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اور انٹراکورٹ میں اسحاق ڈار کی نااہلی کی درخواستیں خارج ہوئیں جبکہ وزیراعظم نواز شریف اور دیگر کے خلاف دائر ریفرنسز خارج کرنے کا فیصلہ رپورٹ کیا جا چکا ہے۔

جسٹس آصف کھوسہ نے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا فیصلے میں ریفرنس خارج اور تفتیش نہ کرنے کا کہا گیا تھا؟جس پر شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ دوبارہ تفتیش کروانے کے معاملے پر 2 رکنی بنچ میں اختلاف تھا اس لیے معاملے کی سماعت ریفری جج نے کی۔جسٹس آصف کھوسہ نے سوال کیا کہ منی لانڈرنگ کیس میں ریفری جج کو اپنی رائے پر فیصلہ دینا تھا؟جس پر شاہد حامد نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ریفری جج نے نیب کی دوبارہ تحقیقات کی درخواست مسترد کی تھی۔

جسٹس گلزار کا اس موقع پر کہنا تھا کہ کیا اس عدالتی فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا؟شاہد حامد نے انہیں بتایا کہ یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا اور عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت ختم ہو چکا۔جسٹس آصف کھوسہ نے شاہد حامد کو ہدایت دی کہ وہ اپنے دلائل مکمل کرلیں، جس کے بعد پراسیکیوٹر جنرل نیب سے اس متعلق پوچھا جائے گا۔

جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد ریکارڈ ہوا۔شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کیس ختم ہوگیا ہے اور اب صرف اس الزام کی بنیاد پر انہیں نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ 25 سال پرانا معاملہ ہے جسے 13 سے زائد ججز سن چکے ہیں، جس وقت ان کے موکل پر منی لانڈرنگ کا الزام تھا اس وقت وہ کسی عوامی عہدے کے مالک نہیں تھے۔

شاہد حامد نے عدالت کو مزید بتایا کہ نیب کے ریکارڈ کے مطابق اسحٰق ڈار اب ملزم نہیں رہے۔جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ وعدہ معاف گواہ بننے والے کی حفاظت کے لیے اسے تحویل میں رکھا جاتا ہے۔شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے 5 ججز نے کہا کہ ایف آئی اے کو بیرونی اکاونٹس کی تحقیقات کا اختیار حاصل نہیں۔جسٹس اعجاز افضل نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا بیان ریکارڈ کرنے والا مجسٹریٹ احتساب عدالت میں پیش ہوا؟جس پر شاہد حامد نے بتایا کہ اس وقت نیب قوانین کے تحت مجسٹریٹ کا احتساب عدالت میں پیش ہونا ضروری نہیں تھا۔

اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد کا یہ بھی کہنا تھا کہ وعدہ معاف گواہ بننے والے کا بیان حلفی اس کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتا۔جس پر جسٹس اعجاز افضل نے جواب دیا کہ وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد بیان اسحاق ڈار نہیں البتہ وزیراعظم کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد اسحاق ڈار کے خلاف نااہلی کا حکم جاری نہیں کیا جا سکتا۔

شاہد حامد کا کہنا تھا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 26 کے تحت اسحاق ڈار کا دوبارہ ٹرائل نہیں کیا جاسکتا۔جس پر ججز کا کہنا تھا کہ یہاں ہم اسحاق ڈار کے اعترافی بیان پر قانون کے علاوہ غور نہیں کریں گے اور اسحاق ڈار کیس پر ڈبل جیوپرڈی کا اصول لاگو ہوگا۔عدالت کا مزید کہنا تھا کہ اسحاق ڈار کو اس کیس میں معافی کے بعد سزا نہیں ہوئی اور شاہد حامد سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس نکتے پر دلائل دیں کہ ایک شخص کا 2 مرتبہ ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔

شاہد حامد نے عدالت کو بتایا کہ مشرف دور میں رانا ثناءاللہ کا سر اور بھنویں منڈوا دی گئیں تھیں جبکہ انہوں نے کسی بینک یا مالیاتی ادارے کو ایک روپیہ بھی ادا نہیں کرنا تھا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج تھا۔ شاہد حامد کے دلائل مکمل ہونے کے بعد 5 رکنی لارجر بنچ کے سامنے پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اسحاق ڈار کیس سے متعلق دلائل کا سلسلہ شروع کردیا۔

پراسیکیوٹر جنرل نیب وقاص قدیر نے عدالت کو بتایا کہ نیب کے اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس میں اپیل دائر نہیں کی جائے گی جبکہ 20 اپریل کو اسحاق ڈار نے معافی کی درخواست دی تھی۔اس موقع پر عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سے نیب کے ا±س اجلاس کی تفصیل طلب کرلی جس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ حدیبیہ پیپر ملز کی اپیل دائر نہیں کی جائے گی۔

ساتھ ہی عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سے اس بات کا جواب بھی طلب کیا کہ نیب، ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک نے اپیل کیوں دائر کیوں نہیں کی۔جسٹس آصف کھوسہ نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے سوال کیا کہ کیا اسحاق ڈار نے درخواست خود لکھی تھی؟ دوسری جانب وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے بھی عدالت میں شریف خاندان کی وراثتی جائیداد کی تقسیم کا ریکارڈ جمع کروادیا۔جائیداد کی تمام تفصیلات بند لفافے میں عدالت تک پہنچائی گئیں -