طیبہ تشدد کیس ؛ پولیس نے چالان میں ماہین ظفر کو براہ راست تشدد کا ذمہ دار قرار دے دیا

سپریمکورٹ میں طیبہ تشدد کیس کی سماعت، بچی حوالگی سے متعلق جج عطا ربانی سے جواب طلب

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین منگل 31 جنوری 2017 10:58

طیبہ تشدد کیس ؛ پولیس نے چالان میں ماہین ظفر کو براہ راست تشدد کا ذمہ ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 31 جنوری 2017ء) : طیبہ تشدد کیس میں پولیس نے چالان تیار کر لیا ہے ۔ تفصیلات کے مطابق پولیس نے اپنے چالان میں ماہین ظفر کو طیبہ پر تشدد کا براہ راست ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔ چالان میں راجا خرم کے چار پڑوسیوں کے بیانات بھی شامل کیے گئے ہیں۔ سابق جج راجہ خرم کو چالان میں طیبہ کے علاج معالجے میں غفلت پر قصور وار ٹھہرایا گیا ہے۔

طیبہ کی میڈیکل رپورٹ کو بھی چالان کا حصہ بنایا گیا ہے۔ راجا خرم اور ان کی اہلیہ کے خلاف سماعت کو ایک ہی عدالت میں ٹرانسفر کر دیا گیا ہے جس کے بعد سابق جج راجا خرم اہلیہ کے ہمراہ بطور ملزم عدالت میں پیش ہوں گے۔ پولیس کی جانب سے تیار کردہ چالان آئندہ کل متعلقہ عدالت میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

(جاری ہے)

دوسری جانب سپریمکورٹ میں بھی طیبہ تشدد کیس کی سماعت ہوئی ۔

طیبہ تشدد کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران ٹرائل کورٹ کے ججز عطا ربانی اور راجہ آصف سے کیس سے متعلق جواب طلب کیا گیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ کا بچی کی حوالگی کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں تھا۔ ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی نے بچی کی حوالگی سے متعلق فیصلے میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا ۔

عدالت نے طیبہ کی حوالگی سے متعلق جج عطا ربانی سے جواب طلب کر لیا ہے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ایک محاورہ ہے جب باپ سر پرنہیں ہوتا توعدالتیں باپ کا کردارادا کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ طیبہ ہماری بھی بچی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طیبہ کےوالدین سویٹ ہومزمیں جا کر اپنی بچی سے ملاقات کر سکتے ہیں۔ دوران سماعت چیف سجٹس نے استفسار کیا کہ کیا طیبہ تشدد کیس کا چالان مکمل ہو گیا؟ جس پر پولیس نے بتایا کہ طیبہ تشدد کیس کا چالان مکمل ہو چکا ہے ، چالان آج ٹرائل کورٹ میں جمع کروا دیں گے ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس مقدمے کو کسی دوسرے شہر کی عدالت میں منتقل کرنے کی استدعا کی گئی تھی ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہائی کورٹ کا دائرہ اختیار ہے ۔ٹرائل کور ٹ میں چالان جمع ہونےکے بعد ہائیکورٹ ہی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ اس مقدمے کو کہاں چلایا جانا چاہئیے؟

متعلقہ عنوان :