آزادکشمیر میں فاروق حیدر حکومت کو 6 ماہ مکمل

حکومتی کارکردگی وزیراعظم کے بلند و بانگ دعوئوں کے برعکس نکلی

منگل 31 جنوری 2017 19:52

مظفرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 31 جنوری2017ء) راجہ فاروق حیدر کو آزادکشمیر کا وزیراعظم منتخب ہوئے 6 ماہ مکمل ہو گئے۔ حکومتی کارکردگی وزیراعظم کے بلند و بانگ دعوئوں کے برعکس نکلی، راجہ فاروق حیدر نے 31 جولائی 2016ء کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد اپنی حکومتی ترجیحات کا اعلان کرتے ہوئے سابق حکمرانوں کی کرپشن کا بے رحمانہ اور ننگا احتساب کرنے، کشمیر لبریشن سیل کی تطہیر کرنے، دسمبر 2016ء میں بلدیاتی انتخابات کروانے، میرٹ کا بول بالا کرتے ہوئے گڈگورننس کو یقینی بنانے اور برادری اور علاقائی ازم کو ختم کر کے یکساں روزگار اور انصاف کی فراہمی کے مواقع پیدا کرنے کے وعدے کئے تھے اور پریس، سول سوسائٹی اور اپوزیشن سے اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کے لئے 6 ماہ کی مہلت مانگی تھی۔

(جاری ہے)

6 ماہ گزرنے کے بعد آج اگر وزیراعظم کے دعوئوں کو حقائق کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو وزیراعظم کی انتظامی و سیاسی ذہنیت ایک مخصوص خول کے اندر فیصلے کرتے دکھائی دیتی ہے۔ ایس سی این کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم فاروق حیدر کی حکومتی کارکردگی اپنی ہی مقرر کردہ ترجیحات کے برعکس ثابت ہوئی ہیں۔ فاروق حیدر وزیراعظم بننے سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت کو سراپا کرپشن قرار دیتے رہے اور بحیثیت اپوزیشن لیڈر سینکڑوں مرتبہ اعلان کیا کہ وہ حکومت میں آ کر کرپشن میں لتھڑی ہوئی بدبودار مجید حکومت کو جیل بھجوائیں گے اور احتساب بیورو کے اندر صاف و شفاف چیئرمین اور افسران کو ذمہ داریاں دیں گے جو کرپٹ سابق وزراء، بیورو کریٹس اور مافیا کو بے نقاب کر کے اُن کے پیٹ سے حرام کی دولت نکالیں گے۔

ان کی حکومت کی پہلی ترجیح کا یہ عالم ہے کہ پہلے چھ ماہ میں سابق حکومت کے وزیراعظم سمیت کسی ایک وزیر مشیر کی کرپشن کو نہ ہی تو بے نقاب کیا گیا اور نہ ہی جیل بھجوایا گیا بلکہ احتساب بیورو کو صاف شفاف بنانے اور اس کے اندر تبدیلی لانے کا منصوبہ بھی زبانی جمع خرچ ثابت ہوا یہاں تک کہ مجید حکومت کے چہیتے چیئرمین احتساب بیورو اور بیورو کریٹس کے لئے نوازشات میں مزید اضافہ کیا گیا۔

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرپشن کے الزام میں کسی مگرچھ کو پکڑنے کی بجائے دوچار چھوٹے ملازمین اور اہلکاروں کو پکڑ کر اور انگلی کو لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی کوشش کی۔ 6 ماہ گزرنے کے باوجود وزیراعظم فاروق حیدر نے سابق حکومت کے بڑے بڑے میگا کرپشن کے منصوبوں اور کرداروں کو کیوں کھلی چھٹی دے رکھی ہی کیا اُن کے بے لاگ احتساب کے دعوے محض ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور، اور کھانے کے اور کے مترادف والی بات ہے۔

وزیراعظم فاروق حیدر کی دوسری ترجیح انصاف کا بول بالا اور قانون کی بالادستی کا یہ عالم ہے کہ اپنے کابینہ کے ایک اہم وزیر چوہدری محمد عزیز پر فائرنگ اور شدید زخمی کرنے کے الزام قاتلانہ حملے کا پرچہ درج ہونے کے بعد گرفتار شدہ سابق حکومت کے وزیر راجہ فیصل ممتاز راٹھور کو بے گناہ قرار دے کر ایسے رہا کر دیا اور جیل سے نکال دیا جیسے مکھن سے بال۔

اسی طرح جناب وزیراعظم کی انصاف پسندی کا ہی یہ کرشمہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد کے قریبی ساتھی اور مشیراعلیٰ آصف کرمانی کو غلیظ گالیاں اور سنگین غداری کے القابات سے نوازنے والے اپنے ہی ایک لیگی رہنما سردار طاہر انور کے خلاف تھانے میں پرچہ درج ہونے کے باوجود نہ صرف گرفتار کیا بلکہ مختلف اطراف سے دبائو کے بعد تھانے میں درج پرچے سے نام بھی نکال دیا۔

وزیراعظم آزادکشمیر کی قانون کی بالادستی کا دعویٰ اُس وقت بھی ہوا میں اُڑتا ہوا نظر آیا جب میرپور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اسٹیٹ آفیسر عمران شاہین کے خلاف میرپور بار کے وکلاء نے مظاہرے کے بعد اُن کے دفتر پر ہلہ بولا، توڑ پھوڑ کی اور افسر موصوف پر حملے کے الزامات پر مشتمل دو درجن وکلاء کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی لیکن فاروق حیدر کی انصاف پسند حکومت نے کسی وکیل یا واقعہ میں ملوث شخص کو گرفتار تو نہ کیا البتہ اپنے ہی اسٹیٹ آفیسر کو او ایس ڈی بنا کر مظفرآباد سروسز میں رپورٹ کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔

تیسری ترجیح کا یہ عالم ہے کہ راجہ فاروق حیدر خان کے بحیثیت وزیراعظم حلف اُٹھاتے وقت اعلان کیا تھا کہ وہ میرٹ کے حوالے سے کوئی کمپرومائز نہیں کریں گے۔ چھ ماہ کی حکومت کے دوران جس طرح میرٹ کی پامالی ہوتی رہی ہے اس کا بخوبی اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک اعلیٰ اور باوقار پبلک سروس کمیشن کو ختم کر کے عدلیہ کے ایک سینئر (ر) جج کو فارغ کر کے ان کی جگہ اپنے ایک قریبی دوست اور اپنے حلقہ انتخابات سے تعلق رکھنے والے (ر) جرنیل کو چیئرمین لگا دیا اور ممبران میں ایسے منظور نظر (ر) بیورو کریٹس کو نامزد کیا جن کے حوالے سے سب آگاہ ہیں کہ انہوں نے انٹرمیڈیٹ اور گریجوایشن کے دوران سپلیمنٹری کے ذریعے امتحانات پاس کیے۔

وزیراعظم نے ذاتی سٹاف میں بھی اپنے حلقے، ضلع اور برادری پر فوکس کیا ہے۔وزیراعظم 6 ماہ کے دوران وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان بہترین کوآرڈنیشن قائم کرکے آزادکشمیر کے مالیاتی و آئینی مسائل کم کرانے میں بھی قطعی طور پر ناکام نظر آتے ہیں وزیراعظم نے صوبہ سندھ سے لے کر صوبہ خیبر پختونخواہ تک دورے محض اس لئے کئے وہ آزادکشمیر کو این ایف سی ایوارڈ میں شامل کروا کر آزادکشمیر کو اپنے حصے کے مالیاتی حقوق دلوائیں گے مگر وفاقی محاصل میں اضافہ تو دور کی بات وزیراعظم اہل میرپور کے لئے منگلا ڈیم سے 155 کلوسک پانی تک نہ لے سکے۔

منگلا ڈیم کی رائلٹی ہو یا واٹر یوزج چارجز میں اضافہ وزیراعظم آزادکشمیر کا کیس مؤثر طریقے سے لڑنے میں ناکام رہے۔ وزیراعظم میرٹ میرٹ کا نعرہ لگا کر این ٹی ایس کے نفاذ کا اعلان کرتے رہے مگر وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ خود این ٹی ایس میں اتنی کرپشن ہے کہ اب اس پرائیویٹ ادارے کی ترجیح محض پیسہ کمانا ہے۔ وزیراعظم پیپلز پارٹی کے دور میں سیاسی ورکروں کو لبریشن سیل میں نوکریاں دینے کے خلاف گلے پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرتے ہوئے اور خود موصوف نے ایم ایس ایف کے ضلعی صدور سمیت دیگر ورکروں کو بھی لبریشن سیل کے فنڈز پر بھرتی کر لیا۔

بلدیاتی انتخابات جن کے انعقاد کا وعدہ دسمبر 2016ء کیا تھا 6 ماہ گزرنے کے باوجود محض ایک اعلان ہی ہے۔وزیراعظم راجہ فاروق حیدر پارٹی پر ’’گرپ‘‘ قائم کرنے میں ناکام رہے۔ عبدالخالق وصی ممبر کشمیر کونسل اور ڈائریکٹر جنرل وزیراعظم سیکرٹریٹ ملک ذوالفقار کے لئے وزیراعظم ہائوس کے دروازے بند کرنے کے باوجود انہوں نے مرکز سے اپنی تقرریاں کروا لیں اور وزیراعظم منہ دیکھتے رہ گئے۔

پارٹی کے اندر علاقائی و برادری جیسی لعنتوں کو مستحکم کیا گیا اور میرٹ کا مطلب راجپوت، مظفر آباد سے تعلق یا ان دونوں سے کوئی نہ کوئی تعلق ٹھہر چکا۔مسلم لیگ (ن) آزادکشمیر کے متعدد سینئر رہنما بھی وزیراعظم فاروق حیدر کی کارکردگی سے نالاں ہیں اور اب اُنہوں نے بھی چپ کا روزہ توڑ دیا ہے گزشتہ روز آزادکشمیر کے سابق وزیر صحت اور مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما ارشد محمود غازی نے میڈیا کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے فاروق حیدر سے سوال کیے ہیں کہ جناب وزیراعظم،کہاں گئی ہے آپ کی گڈگورننس کہاں گیا ہے میرٹ کہاں گیا بے لاگ احتساب اپنی کابینہ کے سینئر وزیر کی کرپشن کے حوالے سے سیرلہ سکیم بھمبر سے لے کر اسلام آباد ہائوسنگ سکیم تک کرپشن پر کیوں آنکھیں بند ہیں۔

کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا دعویٰ کرنے والے فاروق حیدر خان نے میرپور میں جناح ٹائون سے لے کر مسٹ جیسے بڑے بڑے منصوبوں میں کرپشن کرنے والی تعمیراتی کمپنی ہی کو گریٹرواٹر سپلائی سکیم کا ٹھیکہ دے دیا گیا اور بقول بیرسٹر سلطان محمود چوہدری راجہ فاروق حیدر خود کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ آزادکشمیر میں بجلی کی غیر اعلانیہ طویل لوڈ شیڈنگ کے ستائے ہوئے عوام کو وزیراعظم فاروق حیدر نے خوشخبری سنائی کہ وفاقی حکومت کو قائل کر لیا گیا ہے اب پورے آزادکشمیر میں صرف اور صرف 6 گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہو گی اور شہر اور دیہات کا فرق ختم ہو جائے گا مگر یہ اعلان بھی محض اعلان ہی ثابت ہوا اور آزادکشمیر اس وقت بدترین لوڈ شیڈنگ کی زد میں ہے۔

تعلیمی پیکج کے خاتمہ کا حکومتی اعلان بھی عوام میں سخت ناپسند کیا گیا۔ کشمیر کونسل کو ختم کر کے ریاستی اسمبلی کو زیادہ سے زیادہ بااختیار بنانے کے دعوے کے برعکس فاروق حیدر نے اس اہم قومی مسئلے پر چپ سادھ رکھی ہے جیسے یہ تمام معاملات ان کے بس سے باہر ہیں۔ ہسپتالوں میں ادویات دستیاب نہ سٹاف، کچہری اور عدالتوں میں لوگ دربدر، سڑکوں کی حالت بھی ناگفتہ بہ رہی۔ چھ ماہ کے دوران آزادکشمیر کے عوام کا ایک مسئلہ بھی حل نہ ہو سکا۔ وزیراعظم نے اپنے دعوئوں کے برعکس کشمیر ہائوس میں طویل قیام کیا اور کشمیر ہائوس سے سرکاری بزنس ختم کرنے کے نوٹیفیکیشن کے برعکس یہاں پر ہی بڑے بڑے اجلاس منعقد کئے۔

متعلقہ عنوان :