عدالت ’’رباہ اور انٹرسٹ‘‘ کی تعریف کے بعد مقدمات کی سماعت کے بارے میں اپنے دائرہ اختیارکا تعین کرے گی، وفاقی شرعی عدالت

پیر 13 مارچ 2017 23:45

عدالت ’’رباہ اور انٹرسٹ‘‘ کی تعریف کے بعد مقدمات کی سماعت کے بارے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 مارچ2017ء) وفاقی شرعی عدالت نے سودی نظام کے خاتمے کے حوالے سے مختلف مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ عدالت ’’ رباہ اور انٹرسٹ‘‘ کی تعریف کرنے کے بعد ان مقدمات کے سماعت کے بارے میں اپنے دائرہ اختیارکا تعین کرے گی تاکہ اس بنیاد پر دوبارہ کیس ریمانڈ ہوکر واپس نہ آسکے‘ دونوں الفاظ کی کہیں تعریف نہیں ہوئی اور مکمل تعریف سامنے آنے تک عدالتی دائرہ اختیار کا تعین نہیں کیاجاسکتا۔

پیرکو وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس ریاض احمد خان کی سربراہی میں جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان، جسٹس شیخ نجم الحسن اور جسٹس ظہور احمد شیرانی پر مشتمل چار رکنی بینچ نے مقدمات کی سماعت کی۔ ا س موقع پرجماعت اسلامی کے وکیل قیصر امام نے پیش ہوکردلائل دیئے اورموقف اپنایا کہ چونکہ شرعی عدالت میں کوئی آئینی شق چیلنج نہیں کی گئی اسلئے عدالت یہ مقدمہ سننے کا اختیار رکھتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی طرف سے سود کے خلاف پاس کردہ ایکٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے اس قانون کے ذریعے سود پر پابندی عائد کردی ہے جس کی روشنی میں قرضوں پر سود لیا یا دیا نہیں جاسکے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایکٹ پاس ہونے کے باوجود اس قانون پر وہاں عمل نہیں ہورہا، سودی نظام کی وجہ سے پورے صوبے میں تباہی مچی ہوئی ہے۔

جماعت اسلامی کے رہنما ڈاکٹر فرید پراچہ نے عدالت کو آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ نے یہ کیس ریمانڈ کرکے عدالت کے پاس بھجوایا ہے جس سے عدالتی دائرہ اختیار واضح ہوجاتا ہے۔ چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ وہ سیاست کی بات کر رہے ہیں، یہاں سیاست پر بات نہ کی جائے، ہمارے پاس بادشاہوں والے اختیارات نہیں، ہم آئین و قانون کے مطابق سماعت کریں گے، آپ اپنے دلائل آئین و قانون کے دائرے تک محدود رکھیں جس پر ڈاکٹر فرید پراچہ نے کہا کہ اسٹیٹ بنک کا شریعت بینچ بھی موجود ہے، اس معاملے پران کوبھی طلب کیا جائے۔

عدالت نے ان سے کہاکہ کسی کوطلب کرنے کے بارے میں ہمیں مشاورت کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے وکیل بینچ کی مشاورت سے عدالت میں آتے ہیں۔ سماعت کے دوران عدالتی معاون ڈاکٹر سید محمدانور نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے عدالت کو’’ انٹرسٹ اور رباہ ‘‘کی تعریف کرنی چاہیے کیونکہ کہیں بھی ان الفاظ کی تعریف موجود نہیں ہے۔ عدالت نے ان کے دلائل سے متفق ہوتے ہوئے قرار دیا کہ پہلے ہم ان الفاظ کی تعریف کریں گے، اس کے بعد دائرہ اختیار کا تعین کیا جائے گا۔

پروفیسر ابراہیم نے دلائل دینا چاہے تو عدالت نے ان سے کہا کہ چونکہ سپریم کورٹ نے ریمانڈ آرڈر میں یہ لکھا ہے کہ شرعی عدالت دائرہ اختیار کا فیصلہ بھی کرے اس لئے دائرہ اختیارکامعاملہ بھی دیکھنا ہوگا۔بعد ازاں عدالت نے عدالتی معاون کی جانب سے تیاری کیلئے وقت دینے کی استدعا پرمزید سماعت 15 دن کیلئے ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :