سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے ،حکومت پانی کے مسئلے کے حل کیلئے کوشاں ہے، وزیراعلیٰ سندھ

سندھ کیلئے پانی کا 50فیصد کوٹہ کم کیا گیا ہے،وفاق کو مسلسل خط لکھتے رہے تربیلا ڈیم میں پانی جمع کریں ،امید ہے وفاق ہماری بات سن کر مسائل حل کریگا پہلی بار ایسا ہوا ہے پانی کے دو بڑے ذخائر ڈیڈ لیول پر آ گئے ہیں، وزیراعلیٰ ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب

منگل 21 مارچ 2017 23:25

سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے ،حکومت پانی کے مسئلے کے ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 21 مارچ2017ء) وزیراعلیٰ سندھ سیدمراد علی شاہ نے کہاہے کہ سندھ حکومت پانی کے مسئلے کے حل کے لئے کوشاں ہے،سندھ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے سندھ کے لئے پانی کا 50فیصد کوٹہ کم کیا گیا ہے،وفاق کو مسلسل خط لکھتے رہے کہ تربیلا ڈیم میں پانی جمع کریں امید ہے کہ وفاق ہماری بات سن کر مسائل حل کریگا،پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پانی کے دو بڑے ذخائر ڈیڈ لیول پر آ گئے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار آج انہوںنے وزیر اعلیٰ ہائوس کے بینکیوٹ ہال میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ پریس کانفرنس میں صوبائی وزراء جام مہتاب ڈھر، جام خان شورو ، سکندرمیندھرو اور سہیل انور سیال و دیگر انکے ہمراہ تھے ۔ انہوںنے کہاکہ سندھ میں خریف کی کاشت پہلے شروع ہو جاتی ہے،پانی کی صورتحال سے متعلق وفاقی وزارت پانی و بجلی کو خط لکھے ہیں مگر بد انتظامی کی انتہا ہوگئی کہ منگلا ڈیم کو بھی خالی کر دیا ۔

(جاری ہے)

انہوںنے کہاکہ دو سال پہلے 61بلین ، سیکٹر فٹ پانی تھا۔انہوںنے مزید کہاکہ سب سے زیادہ صوبہ سندھ پانی کی قلت کا شکار ہوا ہے اورسندھ کے کاشتکاروں کو پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔،صوبہ سندھ میں پانی کی سطح میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے تربیلا ڈیم میں پانی سطح گر گئی ہے اور اسے بروقت نہیں بھرا گیا۔انہوںنے کہاکہ وفاقی حکومت کو پانی کے بحران سے متعلق تفصیلی خط کل ارسال کر دینگے سندھ میں پانی کا شدید بحران ہونے جا رہاہے اور وفاق نے سند ھ میں پانی کا مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔

انہوں نے کہاکہ سندھ میں کپاس کی کاشت جلد کی جاتی ہے،محکمہ آبپاشی نے تربیلا ڈیم کو بھرنے کے لئے خطوط بھی ارسال کئے،جب اضافی پانی تھا تب تربیلا ڈیم کو نہیں بھرا گیا،پانی کی تقسیم پر وفاقی اداروں پر کوئی اعتبار نہیں۔سیدمراد علی شاہ نے کہاکہ حکومت سندھ بار بار اس جانب وزارت پانی و بجلی کو توجہ دلاتی رہی ہے،تربیلا ڈیم میں 6فٹ پانی کی سطح زیریں سندھ میں کپاس کی فصل کے لئے کام آتی ہے۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے صوبائی وزیر کو ہدایت کی کہ آباد گاروں کے ساتھ اجلاس منعقد کریں تاکہ مسئلے کا حل نکالا جاسکے ۔انہوں نے کہا کہ وزارت پانی و بجلی کی کارکردگی ہے کہ بجلی میں انہوں نے کیا کیا اور پانی میں کیا کر رہے ہیں، میں سخت احتجاج کرتا ہوں۔ میں نے دو د ن پہلے کہا تھا کہ ہمیں فورس نہ کیا جائے جو مرکز کے ادارے ہیں ادھر سندھ کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں ان کے خلاف کوئی ایکشن لیں۔

ہم اپنی طرف سے تو کوشش کر رہے ہیں کہ جو کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ ہم روٹیشن مکینزم چلائیں گے ہم آبادگاروں کو بھی اطلاع کریں گے کہ اپنی بوائی فصلوں کی کو لیٹ کرنا پڑے تو انہیں اعتماد میں لیں گے۔ ایریگیشن اشوز پر تفصیلی خط وفاقی حکومت کو لکھ رہا ہوں جو کل ارسال کیا جائے گا، اس خط میں پانی کے معاہدے کا جو انحراف ہو رہا ہے ، ریگیولیشن ڈیمز کی فلینگ صحیح نہیں کر رہے، جو لنک کینالز بغیر کسی اصول کے چلائے جا رہے ہیں، ڈیمز کی ریگیولیشنز واپڈا سے لے لی جائے، واپڈا فیڈرل گورنمیٹ ہے، ہیں اس ادارے کے جو کرتا دھرتا ہیں وہ منسٹرز کے بھی ہاتھ میں نہیں ہیں، منسٹر ایک بات کرتا ہے اور اس کے ادارے والے دوسری بات کرتے ہیں۔

منسٹر صاحب نے کہا کہ ونڈ پاور کی اجازت دیتے ہیں اور ادارے اسکی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ اس ڈیم کی ریگولیشن ارسا کر رہی بلکہ میں تو یہ کہونگا کے واپڈا کر رہی ہے جو کہ سندھ اور بلوچستان کے حوالے کی جائے تب ہی ٹرسٹ اور اعتماد آئیگا ۔ اس فیڈرل ادارے پر ہمار بالکل لو کانفیڈنس ہے۔ تربیلا کا ڈیڈ لیول 1380فٹ ہوتا ہے 2015 اور 16میں 1462 مطلب کہ 62فٹ اور 20فٹ ایک جس سے ہمیں پانی ابتدائی خریف میں ملتا تھا۔

اس سے ایک سال پہلے 1447اس کے بعد 1441اس سے پہلے 1406پانی تھا اور اس وقت زیرو ہے۔ ہمارے پاس کوئی پانی نہیں کہ ہم ابتدائی خریف میں استعمال کر سکیں۔ اور یہی انہوں نے مس منینجمنٹ کی ہے۔ اسکے علاوہ منگلا بھی اپنے ڈیڈ لیول 1440پر آچکا ہے دوسری درخواست یہ ہے کہ مطلب کے منگلا میں تربیلا سے پہلے بارش کا پانی آتا ہے جبکہ تربیلا میں برف پگھلنے کے بعد پانی آتا ہے۔

اور ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ سندھ کو پانی کی ابتدائی خریف میں پہلے ضرورت ہوتی ہے لہذا ذخیرہ کرنے سے قبل سندھ کو پانی دیا جائے جو کہ نہیں دیا جاتا۔ میں دوبارہ یہ مطالبہ کر تا ہوں کے ریگولیشن سندھ اور بلوچستان کے حوالے کی جائے اور بلوچستان والے بھی ہمارے ساتھ دشواری کا سامنا کرتے ہیں کیونکہ وہ پانی ہماری بیراجوں سے لیتے ہیں۔ منگلا کو فل کرنے کے بجائے اسکا پانی ڈائون اسٹریم سندھ یعنی کوٹری بیراج سے شروع کی جائے اور ضرورت بھی پہلے کوٹری بیراج کو ہے۔

اور مجھے امید ہے کہ وفاقی حکومت بھی سندھ کی بات کو سنے گی ۔ آپ سب دوستوں سے درخواست کیونکہ سندھ کے کاشتکاروںا ور پور ے صوبے کی زرعی معشیت کا انحصا ر اس پر ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ محکمہ آبپاشی کو ایک ہفتے کا وقت دیا ہے کے سی سی آئی کے لئے کیس تیار کریں پانی کا مسئلہ سی سی آئی میں جانا ہے اور مجھے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ دریائے سندھ سے پانی پہلے ٹرانسفر کرتے ہیں چشمہ جہلم کینال اور تونسہ پنجنت کینال میں اور پھر باقی جو دریا ہیں پنجاب کے اندر اسکے بھی بہت سے لنک کینال بنائے ہوئے ہیں اور وہ سارا پانی وہاں منتقل کر دیتے ہیں ۔

منگلا سے ہمیں کوئی پانی نہیں ملتا ہے ابھی وہ دو اور مزید لنک کینال بنانے کے لئے منصوبہ بندی اور فزیبلٹی تیار کی جارہی ہے اور وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے کیونکہ ہمارے آئین میں یہ موجود ہے کہ اگر آپ پانی کے حوالے سے کوئی اسٹکچر بنائیں تو اسکے لئے چاروں صوبوں سے اجازت لینی ہے۔ اسکے لئے میں سی سی آئی کو موو کر رہا جو کہ آئینی راستہ ہے ۔

انہوں نے کہا کہ میں اس حوالے سے وفاقی حکومت کو خط بھی لکھ رہا ہوں اور ا س معاملے کو سی سی آئی کے اجلاس میں بھی اٹھایا جائیگا۔ اگر انصاف نہیں ہوگا تو آخری سرے کے کاشتکاروں کے ساتھ یہ ظلم ہوتا رہے گا ۔ ہمیشہ یہ آپباشی کا اصول ہے اور ہمیں تو ایڈوانٹیج ہے کہ ہمیں آخری سرے پر ہونے کے باعث ہر ایک کو ہمارا خیال رکھنا چاہیے۔ پہلے ہم آخری سرے کے آبادگاروں کی ضروریات کو پورا کریں اور پھر اوپر جائیں پر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ڈیم کے لئے لوکیشن چاہیے ہوتی ہے جبکہ سندھ ایک میدانی علاقہ ہے اور سندھ میں ایسی کوئی جگہ نہیں جہاں پر دریائے سندھ پر ڈیم بن سکے ہم نے چھوٹے ڈیم تو بنائیں ہیں جیسے ڈراوت ڈیم اس کے علاوہ بھی ، برساتی نالوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے ہیں۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہمارے پاس کینجھر جھیل میں پانی کی سطح اچھی ہے اور ہم ہماری پہلی ترجیح پینے کے پانی کی ہے اور کراچی کے لئے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائیگا ۔

وفاق کے ساتھ کشیدگی کی جہاں تک بات ہے تو جہاں پر بھی سندھ کے مفاد کی بات آئیگی اس پر اپنا احتجاج اور اپنی آواز بھی بلند کرینگے۔ واپڈا نے جو ہمارے ساتھ کیا وہ سب کے سامنے ہے نوری آباد پاور پلانٹ کے کام کو دیکھ لیں ہم نے سندھ کی ڈسٹری بیوشن کمپنی بنا لی ہے ہمارے پاس کوئلہ موجود ہے جو کہ پورے پاکستان کی بجلی کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے ۔

ہمارے پاس ونڈ انرجی بھی موجود ہے اور اس کا ایک سال کی مدت میں پلانٹ تیار ہو جاتا ہے۔ لیکن وفاقی حکومت اس پر تیار نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ایل این جی پر بنا لیں پلانٹ ، اور کوئلے کا پلانٹ ساہیوال میں بنانے کا کوئی تک نہیں بنتا اور مجھے سمجھ نہیں آتی اس بات کی اس وقت ایل این جی کی قیمت اس لئے کم ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس وقت تیل کی قیمیتں کم ہیں اور جب ہمارے پاس اپنا فیول یعنی کوئلہ موجود ہے ۔

ہمارے پاس رینیوبل انرجی کے وسائل موجود ہیں اور وہ زیادہ تیزی سے لگ سکتے ہیں۔ ہم نے ایک اسکیم بنائی تھی جس کے تحت پی پی موڈ کے تحت 20,20میگا واٹ کے 5سولر انرجی کے پلانٹس لگانے کا پلان بنایا اور اس حوالے سے نجی سرمایہ کار اور مقام بھی تلاش کر لیے تھے جن میں لاڑکانہ ، سکھر ، ٹھٹھہ ، جامشورو، جھمپیرشامل ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ سندھ سیدمرا د علی شاہ نے کہاکہ کسی کے خلاف کوئی کیس ہے تو قانون کے مطابق کاروائی کی جائے اورعدلیہ کو احکامات کی خلاف ورزی کرنے پر نوٹس لینا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ ہم عدالتوں کے احکامات کا احترام کرتے ہیں اورصوبے سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ سیدمرا د علی شاہ نے کہاکہ شرجیل میمن کو دوبارہ کابینہ میں شامل کرنا میرا معاملہ ہے۔

متعلقہ عنوان :