بریگزٹ کا نوٹیفیکیشن یورپی یونین کے حوالے،برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا 2 سالہ عمل شروع

برطانوی وزیراعظم نے یورپی یونین سے نکلنے کا عمل شروع کرنے کے خط پر دستخط کیے تھے

بدھ 29 مارچ 2017 18:58

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 29 مارچ2017ء) برطانیہ نے 44 سال کی ممبر شپ کے بعد باضابطہ طور پر یورپی یونین سے علیحدگی کا نوٹیفیکیشنر ڈونلڈ ٹسک کو پیش کردیا جس کے بعد برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کا عمل شروع ہوگیا جسے مکمل ہونے میں تقریبا 2 سال کا عرصہ لگے گا،اس سے پہلے برطانوی وزیراعظم ٹریزا مے نے یورپی یونین سے نکلنے کا عمل شروع کرنے کے خط پر دستخط کیے تھے جس کے بعد لزبن آرٹیکل 50 کے تحت برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنے کا عمل باضابطہ طور پر شروع ہو گیا ۔

برطانوی میڈیا کے مطابق غیر ملکی میڈیا کے مطابق برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کی جانب سے برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا کا عمل شروع کرنے کے حوالے سے لکھے گئے خط کو یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک کے حوالے کردیا گیا جس کے بعد بریگزٹ کا عمل باضابطہ طور پر شروع ہوگیا۔

(جاری ہے)

برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے آئین کے آرٹیکل 50 کے تحت حاصل اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے بریگزٹ کا عمل شروع کیا۔

خط میں برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین کو باضابطہ طور پر مطلع کیا گیا کہ برطانیہ واقعی یورپی بلاک سے علیحدگی اختیار کرنا چاہتا ہے جس میں وہ 1973 میں شامل ہوا تھا۔علاوہ ازیں برطانوی وزیراعظم تھریسا مے نے اس سلسلے میں برطانوی ارکان پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا کہ یہ وقت متحد ہونے کا ہے۔برطانوی وزیراعظم ہائو س سے جاری بیان کے مطابق تھریسا مے نے پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں کہا کہ جب وہ آنے والے مہینوں میں یورپی یونین میں مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گی تو برطانیہ میں موجود ہر ایک شخص کی نمائندگی کررہی ہوں گی چاہے وہ بوڑھا ہو یا جوان، امیر ہو یا غریب۔

برطانوی وزیراعظم کی جانب سے لکھا گیا خط یورپی یونین میں برطانیہ کے مستقل مندوب ٹم بیرو نے یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک کے حوالے کیا اور اسی لمحے برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے لیے 2 سال پر محیط عمل شروع ہوگیا۔ڈونلڈ ٹسک نے 6 صفحات پر مشتمل خط ملنے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'ابھی برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ نہیں ہوا لیکن ہم ابھی سے اسے مِس کررہے ہیں'۔

انہوں نے اس موقع پر افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'اس لمحے کو کسی بھی طرح خوشی کا لمحہ نہیں کہا جاسکتا، نہ لندن کے لیے اور نہ ہی برسلز کے لیے۔انہوں نے کہا کہ بریگزٹ نے یورپی یونین کے دیگر 27 رکن ممالک کو مزید متحد اور پرعزم کردیا ہے۔اب آئندہ دو سال تک برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان مذاکرات کے کئی دور منعقد ہوں گے جن میں تجارت، صحت، مائیگریشن، تعلیم و دیگر شعبوں پر تفصیلی بات چیت کی جائے گی اور نئے معاہدے ہوں گے۔

یاد رہے کہ 16 مارچ کو برطانوی ملکہ الزبتھ دوئم نے بھی یورپی یونین سے برطانیہ کی علیحدگی (بریگزٹ) سے متعلق پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کی توثیق کردی تھی۔گزشتہ برس جون میں برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے کا علیحدہ ہونے کے حوالے سے ریفرنڈم کا انعقاد کرایا گیا تھا جس میں عوام کی اکثریت نے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیے تھے۔برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتدا میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔