وفاقی حکومت سندھ میں ونڈ پاور پروجیکٹ کے منصوبے شروع کرنے میں مسلسل رکاوٹ ڈال رہی ہے

وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کا اسمبلی اجلاس کے دوران خطاب

پیر 17 اپریل 2017 23:55

وفاقی حکومت سندھ میں ونڈ پاور پروجیکٹ کے منصوبے شروع کرنے میں مسلسل ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 17 اپریل2017ء) وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت سندھ میں ونڈ پاور پروجیکٹ کے منصوبے شروع کرنے میں مسلسل رکاوٹ ڈال رہی ہے اور یہ مناسب طرز عمل نہیں ہے۔ پیر کو سندھ اسمبلی میں محکمہ توانائی سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سندھ میں 650 میگاواٹ کے ونڈ پاور پروجیکٹ مکمل ہیں۔

وزیر اعلیٰ بننے کے بعد انہوں نے ان منصوبوں پر اور زیادہ تیزی سے کام شروع کرایا تھا۔ اس شعبے میں سرمایہ کار سرمایہ کاری کرنے کے لیے بھی تیا رہیں لیکن سندھ کی بجلی خریدنے کو کوئی تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے ساتھ تعارفی ملاقات کے موقع پر انہوں نے وزیر اعظم کو یہ پیشکش کی تھی کہ ونڈ پاور پروجیکٹ کے لیے اگر وفاقی حکومت کوئی مدد نہیں کر رہی تو ہم اپنے پیسے خرچ کرنے کو تیار ہیں۔

(جاری ہے)

وزیر اعظم کو بتایا کہ اس وقت تقریباً 350 میگاواٹ بجلی کا منصوبہ تیار ہے اور 200 میگاواٹ کا منصوبہ جلد مکمل ہو جائے گا اور ہم ایک ہزار سے 800 میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ نیپرا بھی وفاقی حکومت کے ماتحت ہے اور وہ سندھ کی پاور ٹرانسمیشن کمپنی سے بجلی لینے کو آمادہ نہیں۔ اس حوالے سے 10 اگست 2016 ء کو وزیر اعظم کو خط بھی لکھا گیا تھا ، جس کا ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا ہے۔

وقفہ سوالات کے دوران ارکان کے مختلف تحریری اور ضمنی سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزیر پارلیمانی امور نثار کھوڑو نے بتایا کہ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران دیہاتوں کو حیسکو اور سیسکو کے ذریعہ 4761 گاؤں کو بجلی فراہم کی گئی ہے۔ اس منصوبے پر 5 ارب روپے سے زائد رقم خرچ کی گئی۔ سندھ کے دیہاتوں کے علاوہ کے الیکٹرک کے ذریعہ کراچی میں 134 دیہی علاقوں کو بھی بجلی دی جا چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں ساحلی پٹی پر ایک بڑا ونڈ کوریڈور ہے۔ اسی لیے جھمپیر ونڈ پاور پلانٹ کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا۔ اس منصوبے میں کئی پارٹیوں نے دلچسپی لی لیکن یہاں پر بھی یہی مسئلہ ہے کہ اگر بجلی تیار کی جائے تو وہ نیشنل گرڈ اسٹیشن میں جائے گی اور پھر وفاقی حکومت سے رجوع کرنا پڑے گا۔ جو ٹیرف مقرر کرتی ہے۔ اس حوالے سے فروری 2016 میں وفاقی حکومت کو پہلی درخواست بھیجی گئی تھی لیکن اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اس نوعیت کے ہمارے سندھ میں 35 پروجیکٹ ہیں۔ جن کے ذریعہ 2086 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ ہمسایہ ملک میں ونڈ پاور کے ذریعہ 70 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ ہم گذشتہ دو سال سے صرف وفاقی حکومت سے اجازت ہی مانگنے میں مصروف ہیں۔ ایم کیو ایم کے قمر عباس رضوی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بجلی کے مسئلے پر سندھ حکومت الیکشن قریب آنے کی وجہ سے شور نہیں مچا رہی۔

الیکشن ہوتے رہیں گے۔ جمہوریت آئندہ بھی قائم رہے گی اور کسی کو جمہوریت شب و خون مارنے کی آئندہ ہمت بھی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ شب و خون مارنے والوں کو آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں کیونکہ ایک طویل عرصے تک آپ ان کے ساتھ رہے ہیں۔ نثار کھوڑو نے بتایا کہ پاکستان میں سال بھر تپتا ہوا سورج موجود رہتا ہے۔ ورلڈ بینک کی جانب سے ایک منصوبے کی پیشکش ہوئی ہے ، جس کے تحت سرکاری عمارتوں جن میں سندھ اسمبلی بلڈنگ ، سندھ سیکرٹریٹ ، اسپتالوں اور اسکولوں کی عمارتیں بھی شامل ہیں ، انہیں سولر انرجی کے ذریعہ بجلی فراہم کرنے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

اس منصوبے کو اربن روف ٹاپ کا نام دیا گیا ہے لیکن ابھی اس پر کام شروع نہیں ہوا۔ ایک اور سوال کے جواب میں نثار کھوڑو نے کہا کہ سندھ حکومت بجلی کے بلوں کی ادائیگیوں کے حوالے سے کسی بھی وفاقی ادارے کی نادہندہ نہیں ہے اور ہم تمام واجبات بروقت بلکہ بسا اوقات ایڈوانس بھی ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ میں بھی بہت سے دیہاتوں کو یہاں ٹرانسمیشن لائن بچھانا دشوار ہے۔

وہاں بھی سولر انرجی کو بروئے کار لانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اچھرو ، سانگھڑ اور ننگر پارکر میں 350 دیہاتوں کو سولر پلانٹ کے تحت بجلی دی گئی ہے جبکہ اوباڑوں میں 5 گاؤں کو سولر انرجی کے ذریعہ بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ جہاں لوگوں نے رات کے وقت گھر کی بتیاں اور پنکھے چلانے کے لیے بیٹریاں رکھی ہوئی ہیں ، جو دن کو سورج کی روشنی میں چارج ہو جاتی ہیں اور رات کے وقت لوگوں کی بجلی کی ضروریات پوری کرتی ہیں۔

متعلقہ عنوان :