مظفرآباد‘ ڈینگی مچھروں سے نجات کیلئے انتظامات کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے

اتوار 23 اپریل 2017 14:10

مظفرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 اپریل2017ء) دارلحکومت مظفرآباد میں ڈینگی مچھروں سے نجات کے لئے جنگی بنیادوں پر انتظامات کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ،ْ ڈی جی ہیلتھ کے دفتر کے پیچھے گندہ پانی کھڑا ہونے کے باعث مچھروں کا گڑ بن چکا ہے دوسری جانب شہر میں نہ سپرے نہ صفائی اب تک ڈینگی مچھروں کے شکار ہونے والے مریضوں کی تعداد 100سے زائد بتائی جاتی ہے جبکہ70سے زائد اسلام آباد ، ایبٹ آباد کے ہسپتالوں میں زیر ِ علاج ہیں ، امبور ایمز او رسی ایم ایچ مظفرآباد مریضوں کے لئے وبال و جان بن گیا ہے دس روپے کی ڈسپرین بھی باہر سے خریدی جانے لگی جو کہ حکومتِ آزادکشمیر کے لئے سوالیہ نشان ہی ۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق دارلحکومت مظفرآباد میں چیک اِن بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے عوام مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر رہ گئی ہے جِس کی بڑی وجہ آزادکشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد میں یومیہ منوں کے حِساب سے جعلی ادویات ڈاکٹروں کی تجویز سے فروخت ہورہی ہے ،ْ استعمال کرنے والے مریض بجائے صحت یاب ہونے کہ ہسپتالوں میں ڈھیرے لگانے لگے جبکہ گزشتہ تین ماہ کے دوران دارلحکومت مظفرآباد میں ڈینگی مچھروں کا شکار ہونے والے مریضوں کی تعداد 100سے زائد بتائی جاتی ہے جبکہ 70سے زائد ابھی تک ، پاکستان کے مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں ڈی جی ہیلتھ جو دارلحکومت مظفرآباد میں ڈینگی مچھروں سے بچائوکے لئے جنگی بنیادوں پر چلائی جانے والی مہم کے نام پر لاکھوں روپے خرچ کررہے ہیں وہاں ڈی جی ہیلتھ کے دفتر کے بیک سائیڈ میں گٹر کے گندے پانی کے کھڑے ہونے کی وجہ سے مچھروں نے اپنی کالونیاں بنا رکھی ہیں جہاں سے وہ شہر کے دیگر علاقوں میں جاکر عوام کو اپنا شکا ر بنانے لگے ہیں جو کہ ڈی جی ہیلتھ کے ہوائی اعلانات کا منہ بولتا ثبوت ہے اِس وقت چہلہ بانڈی ، سماں بانڈی ، لوئر پلیٹ ، اپر پلیٹ ، اولڈ سیکرٹریٹ ، بینک روڈ ، خواجہ محلہ ، بابو محلہ سمیت دیگر علاقوں میں اسپرے کا کام نہ ہوسکا جِس کی وجہ سے روزانہ کی سطح پر عوام ڈینگی وائرس کا شکار ہورہے ہیں جبکہ کروڑوں روپے سے تیار ہونے والی دارلحکومت مظفرآباد کی دو ہسپتالیں ’’ شیخ زائد بِن النہیان (CMH) ، جبکہ امبور ایمز ہسپتال‘‘جِن میں بیٹھنے والے ڈاکٹر ماہوار لاکھوں روپے وصول کررہے ہیں وہاں مریضوں سے کمیشن لینے میں بھی تاخیر نہیں کرتے دس روپے کی ڈسپرین بھی باہر سے لِکھ کر دی جاتی ہے اِ ن ڈاکٹروں نے اپنی اپنی کلینکوں کا نام تجویز کرکے مریض کو پرچی دے دیتے ہیں جہاں سے بے چارہ مریض جو پہلے ہی بیمار ہوتا ہے وہاں ادویات کی بھاری پرچی دیکھتے ہی مزید بیمار ہوجاتا ہے کیونکہ پرچی میں لگائے جانے والی رقم میں ڈاکٹر کی کمیشن اور اُس کے کمپوڈر کا خرچہ پانی بھی شامل ہے جو بے چارہ مریض سے وصول کیا جاتا ہے کیونکہ جِس میڈیکل اسٹور کی پرچی ڈاکٹر نے دی ہوتی ہے وہ میڈیسن کسی دوسرے میڈیکل سٹور سے ملنا آسمان سے تارے توڑنے کے برابر ہوتی ہے جو کہ سوالیہ نشان ہے ۔

متعلقہ عنوان :