پاکستان کی بقاء جمہوریت اور ایک وفاقی نظام میںہے، اس کی سب سے بڑی ضمانت پاکستان کا آئین ہے جس میں صوبوںکو حقوق دیئے گئے ہیں

چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی کا پشاور میں بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی برائے خواتین میں منعقدہ قومی کانفرنس سے خطاب

بدھ 3 مئی 2017 23:30

پاکستان کی بقاء جمہوریت اور ایک وفاقی نظام میںہے، اس کی سب سے بڑی ضمانت ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 مئی2017ء) چیئرمین سینٹ میاں رضاربانی نے کہا ہے کہ پاکستان کی بقاء جمہوریت اور ایک وفاقی نظام میںہے اور اس کی سب سے بڑی ضمانت پاکستان کا آئین ہے جس میں صوبوںکو حقوق دیئے گئے ہیں اور ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے پاکستان کی پارلیمان اور بلخصوص سینیٹ آف پاکستان کو اپنا آئینی کردار ادا کرنا ہوگاکیونکہ جب دیگر ادارے کام کرنا چھوڑ دیں اور پارلیمان موجود ہو تو پھر پارلیمان پر تاریخی اور آئینی لحاظ سے یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آگے بڑھے اور اپنا آئینی کردار ادا کرے ۔

چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو پشاور میں بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی برائے خواتین میں منعقدہ دو رروزہ قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا عنوان ’’پاکستان میں وفاقیت: مشکلات اور مستقبل ‘‘تھا ۔

(جاری ہے)

میاں رضاربانی نے کہا کہ وفاقیت کا مسئلہ یہی ہے کہ آئین ، وفاق ، صوبے اور اٹھارویں ترمیم اپنی جگہ موجود ہیں لیکن عمل درآمد نہیں ہورہا اور عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مرکزیت پسند ذہنیت مضبوط اسلام آباد کو مضبوط وفاق کہتی ہے لیکن مضبوط صوبے ہی مضبوط وفاق کی ضامن ہے۔

اٹھارویں ترمیم نے حالات یکسر تبدیل کردیئے اور صوبوں کو زیادہ بااختیار بنانے کی بات کی لیکن مرکزیت پسند ذہنیت ’’میں نہ مانوں ‘‘ کی پالیسی پر کارفرما رہی ۔ انہوں نے کہا کہ جو ادارے بنائے گئے انہیں مناسب طریقے سے استعمال نہیں کیا جارہا ۔ جس کی وجہ سے صوبوں کی دی گئی خودمختاری کے ثمرات صحیح معنوں میں صوبوں تک نہیں پہنچ رہے۔ آئین کے آرٹیکل 172کی شق 3 میں ترمیم کی گئی اور اٹھارویں ترمیم کے بعد تیل و گیس کے اوپر متعلقہ صوبے اور وفاق کا حق برابر برابر کر دیا گیا ۔

لیکن افسوس کے ساتھ کہ آج دن تک اس کا کوئی مناسب لائحہ عمل نہیں بنایا گیا اور آج بھی وفاق سو فیصد کنڑول کر رہا ہے ۔میاں رضاربانی نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی شکل میں ایک فورم موجود ہے اور بلخصوص اٹھارویں ترمیم کے ذریعے مشترکہ مفادات کونسل کو وفاق اور صوبوں کی ایک مشترکہ قیادت کے طور پر سامنے لانے کی کوشش کی گئی ، فیڈرل لیجسلٹیو پارٹ II میں جو آئٹمز ہیں اور جو ریگولیٹری باڈیز ہیں اور جو خود مختار اور نیم خود مختار ادارے ہیں ان کو ملکر چلائیں اور اس کا ایک مناسب لائحہ عمل دیا گیا اور مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل کیلئے آئینی طور پر طریقہ کار وضع کیا گیا لیکن اُس طریقہ کار اور لائحہ عمل پر من و عن عمل نہیں ہو رہا اور جو امور مشترکہ مفادات کونسل میں جانے چاہیے وہ نہیں جا رہے ۔

جو خلفشار صوبوں اور وفاق کے درمیان ہے اگر اس کو سی سی آئی میں زیر غور لایا جائے تو یقینی طور پر ان مسائل کا حل نکالا جا سکتا ہے اور اٹھارویں ترمیم میں این ایف سی کے معاملے کا بھی پوری طرح احاطہ کیا گیا ہے ۔ میاں رضاربانی نے کہا کہ جب پاکستان معرض وجود میں آیا اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اگست1947 کی تقاریر میں خدوخال دئیے اور کہا کہ پاکستان ایک ترقی پسند ریاست ہوگی لیکن بد قسمتی سے قائد اعظم کی وفات کے بعد وہ تصور بھی تبدیل کر دیا گیا اور پاکستان کو نیشنل سیکیورٹی ریاست بنا دیا گیا جس کی وجہ سے ترجیحات تبدیل ہوئیں اور 1973 تک نہ تو کوئی آئین ملا اور نہ اس پر کوئی عملدرآمد ہوا ۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم اور صحت پر صوبوں کا حق تھا لیکن وفاق نے اس پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا تھا اور جب اٹھارویں ترمیم کے تحت تعلیم اور صحت کے شعبوں کو صوبائی دائر اختیار میں دینے کا وقت آیا تو اس پر کافی مذاحمت کا سامنا کرنا پڑا جبکہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ ریاست اپنے مقاصد کو پورا کرنے کیلئے اور سیکیورٹی ریاست کے تصور کو آگے لے جانے کیلئے ایسا نظام وضع کرنا چاہتی تھی جس سے پاکستان کی نئی نسل تاریخ سے نا واقف ہو اور اپنی ثقافت سے بگانہ ہو اور ایسے شہری پیدا کیے جو ریاست کے سامنے سوال نہ اٹھا سکیں اور اسی حکمت عملی نے عدم استحکام کی فضاء پیدا کی اور عدم برداشت کو فروغ ملا آج یہی وجہ ہے کہ ہمارے پاس حبیب جالب اور جان ایلیا جیسے لوگوں کا کوئی متبادل نہیں ہے۔

معاشرے میں عدم برداشت کا کلچر فروغ پاگیا ہے۔ اور ایک خلا پیدا ہوگیا ہے اور اس صورتحال کے پیش نظر دہشت گردی اور انتہا پسندی جنم لے رہے ہیں۔ اور افسوس کے ساتھ اس کا کوئی حل سامنے نہیں آرہا ۔شدت پسندی کو حکومتی سطح پر حکمت عملی کے ذریعے سے نہیں روکا جاسکتا ۔ شدت پسندی کیخلاف پارلیمان کے اندر پاکستان کے دانشوروں کے اندر پاکستان کی نوجوان نسل اور یونیورسٹیوں کے اندر جب بحث و مباحثہ ہوگا تو وہاں سے اس کا حل نکلے گا ۔

انہوں نے کہا کہ آمروں نے طلبا تنظیموں پر پابندی لگائی اور بحث مباحثے کا کلچر ختم ہوا ۔ میاں رضاربانی نے کہا کہ جامعات اور تعلیمی اداروں سے نئی سوچ نکلتی ہے اور نئے خیالات جنم لیتے ہیں ان کو جان بوجھ کر ختم کرنے کی کوشش کی گئی ۔اور ریاستی فیصلوں نے ہی ٹریڈ یونینز کا گلہ گھونٹ دیا ۔ سوچ ، علم اور ادب کو ختم کیا گیا ۔ افتتاحی تقریب سے پاکستان ادارہ برائے پارلیمانی خدمات کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرظفراللہ خان نے بھی خطاب کیا اور کہا کہ پاکستان ایک وفاقی ریاست کے طور پر قائم ہوا تھا تاکہ تمام مذہبی اور نسلی گروہوں کے حقوق کا تحفظ ممکن ہو ، تعلیمی اداروں کو وفاقیت اور آئین سے متعلق زیادہ سے زیادہ کورسز کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے نوجوان نسل کے مابین بحث مباحثے کے رویوں کے فروغ پر بھی زور دیا ۔ یونیورسٹی کی وائس چانسلر رضیہ سلطانہ نے بھی خطاب کیا اور کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔جبکہ دیگر ماہرین نے بھی خطاب کیا ۔ دوروزہ کانفرنس میں بڑی تعداد میں ماہرین وفاقیت اور اسے درپیش مشکلات کے بارے میں تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے جس سے طلباء میں وفاقیت سے متعلق آگاہی پھیلانے میں مددملے گی ۔