سپریم کورٹ ، قتل کے 4 مختلف مقدمات میں شک کا فائدہ دیتے ہوئے تین ملزمان بری

ایک ملزم کی بریت کی درخواست مسترد ، سزائے موت عمرقید میں تبدیل

منگل 23 مئی 2017 19:06

سپریم کورٹ ، قتل کے 4 مختلف مقدمات میں شک کا فائدہ دیتے ہوئے تین ملزمان ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 مئی2017ء) سپریم کورٹ نے قتل کے 4 مختلف مقدمات شک کا فائدہ دیتے ہوئے تین ملزمان کو بری جبکہ ایک ملزم کی بریت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے سزائے موت کو عمرقید میں تبدیل کر دیا۔ چاروں مقدمات کی سماعت منگل کو جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کی۔

پہلے مقدمے میں عدالت عظمیٰ نے صوابی کے علاقہ ٹوپی میں17 مئی 2011ء کو ساڑھے 3 سالہ بچے کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعدگلے میں رسی ڈال کر قتل کرنے والے ملزم عباس خان کی طرف سے دائر اپیل کی سماعت کی۔ عباس کو ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ نے سزائے موت سنائی تھی جبکہ مجرم نے عدالت کے سامنے اعتراف جرم بھی کیا تھا۔

(جاری ہے)

تاہم سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ صرف اعترافی بیان پر ملزم کو سزا نہیں دی جا سکتی جب تک کوئی اور آزاد شہادت موجود نہ ہو کیونکہ اعترافی بیان کسی چیز کو سپورٹ نہیں کرتا بلکہ اسے خود سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اس وقوعہ کا کوئی عینی شاہد بھی نہیں اور طبی شہادت سے بھی زیادتی ثابت نہیں ہوتی۔ اس لئے ملزم کی اپیل منظور کرتے ہوئے اسے سنائی گئی تمام سزائیں کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔ عدالت نے 6 سال بعد ملزم کو رہا کرنے کا حکم دیدیا۔ دوسرے مقدمے میں عدالت نے ملزم نوید اقبال کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے ،ملزم پر ساجد مصطفی کو 3 اکتوبر 2007ء میں لاہور میں قتل کرنے کا الزام تھا۔

عدالت نے شواہد کی عدم دستیابی کے باعث ٹرائل کورٹ اور ہائیکورٹ کی طرف سے سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دیدیں اور فوری رہا کرنے کا حکم دیدیا۔ تیسرے مقدمے میں عدالت نے 12 سال بعد ملزم محمد اقبال کی رہائی کا حکم دیا۔ ملزم نے 9 اکتوبر 2005ء کو ٹنڈو آدم ضلع سانگھڑ میں قربان علی کو قتل کیا تھا۔ ملزم کو ٹرائل کورٹ نے سزائے موت سنائی تھی جسے ہائیکورٹ نے عمرقید میں تبدیل کر دیا تھا۔

عدالت نے عظمیٰ نے قرار دیا کہ استغاثہ کے دو گواہان اپنے بیان سے منحرف ہو گئے تھے اور استغاثہ کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ جسٹس دوست محمد خان کا کہنا تھا کہ ایسے مقدمات میں گوہان حلف پر بھی سچ نہیں بولتے۔ چوتھے مقدمہ میں عدالت نے فیصل آباد کے علاقے رضاآباد میں2008ء میں نمختاراں بی بی کو قتل کرنے والے ملزم امجد علی کی درخواست بریت مسترد کرتے ہوئے سزائے موت کو عمرقید میںتبدیل کر دیا۔

ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزائے موت جبکہ ہائیکورٹ نے بھی سزائے موت برقرار رکھی تھی تاہم ہائیکورٹ نے شریک ملزمان جمال دین اور افضل کو بری کر دیا تھا۔ ملزمان کی طرف سے ارشد علی چوہدری ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں ایک بچہ بھی گواہ کے طور پر پیش کیا گیا جس کی گواہی تسلیم کی گئی حالانکہ قانون میں بچے کی گواہی تسلیم نہیں کی جا سکتی اور عینی گواہان کو بھی ہائیکورٹ نے ماننے سے انکار کر دیا تھا

متعلقہ عنوان :