پہلے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہائوس پر شلواریں لٹکائی گئیں اب اللہ خیر کس کس کی شلوار لٹکتی ہے ، عدالت عظمی نے درست طور پر حکومت کو مافیا قرار دیا ، کسی پرزمین تنگ کرکے بچوں کے قتل کی دھمکیاں مافیاز کی جانب سے ہی دے جا سکتی ہیں ، نہال ہاشمی حکومت کی اداروں کے خلاف مہم کا حصہ ہیں ، حکومت اس کی پشت پر کھڑی ہے تاکہ عدلیہ کو اتنا متنازعہ بنا دیا جائے، وہ کوئی فیصلے کر بھی لے حکومت اسکا حلیہ بگاڑ دے گی ، عملدرآمد ایک چیلنج ہو گا

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی اپوزیشن کے قومی اسمبلی کے اجلاس سے بائیکاٹ کے بعد میڈیا سے گفتگو

پیر 5 جون 2017 22:03

پہلے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہائوس پر شلواریں لٹکائی گئیں اب اللہ خیر ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 05 جون2017ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ پہلے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ ہائوس پر شلواریں لٹکائی گئیں اب اللہ خیر کس کس کی شلوار لٹکتی ہے ، عدالت عظمی نے درست طور پر حکومت کو مافیا قرار دیا ہے ، کسی پرزمین تنگ کرکے بچوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں مافیاز کی جانب سے ہی دے جا سکتی ہیں ، نہال ہاشمی حکومت کی اداروں کے خلاف مہم کا حصہ ہیں ، حکومت اس کی پشت پر کھڑی ہے تاکہ عدلیہ کو اتنا متنازعہ بنا دیا جائے کہ وہ کوئی فیصلے کر بھی لے حکومت اکا حلیہ بگاڑ دے گی اور عملدرآمد ایک چیلنج ہو گا ۔

وہ پیر کواپوزیشن کے قومی اسمبلی کے اجلاس سے بائیکاٹ کے بعد میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے ۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ اپوزیشن نے عوام میں جانے کا فیصلہ کیا ہے ۔

(جاری ہے)

ادارے ملکی معاملات اور ریاست کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ اہم ادارے ہیں اگر ان میں ٹکرائو ہو جانے یا حکومت عدلیہ اسٹیبلشمنٹ میں ٹکرائو ہو جائے تو اس کے خطرناک نتائج نکلتے ہیں ۔

ایک سینیٹر نے جو بات کیں اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔ ایسی دھمکیاں مافیا ہی دے سکتی ہے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ سینیٹر اکیلا نہ ہے پیچھے کوئی ہے ۔ انہیں گورنر بنانے کی پیشکش کی گئی ہے ۔ ایک بار پھر اسی سینیٹر نے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف جو زبان استعمال کی ہے کہ عدلیہ اس وقت کیا تھی جب یہاں شلواریں لٹکی ہوئی تھیں ایسی باتیں ثابت کرتی ہیں کہ وہ اکیلا نہیں ہے ۔

جے آئی ٹی اس معاملے کو وزارت قانون و انصاف ڈیل کررہی ہے اور وہ وزارت داخلہ کی سیکیورٹی ہے عمارت کے اندر کی تصویر کیسے باہر آئی ،عدالت میں قانونی جنگ لڑے ۔ نہال ہاشمی کی ٹاک اور حسین نواز کی تصویر اعلیٰ عدلیہ کو متنازعہ بنانے کی کوشش ہے ۔ وفاقی اور صوبائی وزراء نے بھی ایسی زبان استعمال کی تھی ۔ انہوں نے 1997-98 کی بے نظیر بھٹو کی تپتی دھوپ میں معصوم بچوں کے ساتھ عدالت آتے ہوئے شاہ پر پیش کیا ۔

ان میں اینٹوں پر بے نظیر کے بیٹھے بچوں کی تصاویر بھی شامل ہیں ۔ ہمارے لیڈروں کو جیلوں میں ڈالنے اور سزائیں سنانے کے لئے ٹیلیفون کیے جاتے ہیں ۔ حکومت کی طرف سے اداروں کو خوفزدہ کیا جا رہا ہے اور متنازعہ بھی بنایا جا رہا ہے تاکہ وہ آزادانہ فیصلے نہ کر سکیں ۔ قطر سے سات ممالک نے تعلقات منقطع کر لیے ہیں ہم قطری گھوڑوں کی بات کرتے ہیں کبھی قطری خط کی بات کی جاتی ہے ۔

قطر کے ساتھ ہماری پوزیشن بنانا ہو گی ۔حسین نواز آرام سے عزت سے کرسی پر بیٹھے ہیں ۔ لوڈ شیڈنگ عروج پر ہے نہ بجلی نہ پانی ہے ۔ کمبوڈیا میں ہمارے بچے جیلوں میں پڑے ہیں ایٹمی ملک کو کس مقام پر لے جا رہے ہیں ۔ حکمرانی کے گھوڑے پر سوار ہیں ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اگلی بار بھی یہ آجائیں ہمارے زمانے میں 35 ارب روپے وزیر اعظم نے جاری کیے تھے ۔

عدالت عظمیٰ نے نوٹس لیا اب واپڈا نے 222 ارب روپے مختص کیے ہیں مگر تقسیم کی کوئی وضاحت نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ ہم اس معاملے پر عدالت کا دروازہ کھٹکٹھائیں ۔حکومت فاٹا اصلاحات میں مخلص نہیں ہے ۔ ہم نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا شاہ جی گل آفریدی اور مولانا صاحب لڑے تو میں نے کہا کہ کیوں لڑ رہے ہیں یہ لالی پاپ ہے ۔ فاٹا اصلاحات ناکام صرف اور صرف پاکستان پیپلزپارٹی کر سکتی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ عدلیہ کو اتنا متنازعہ بنا دیا جائے کہ حکمرانوں کے خلاف فیصلہ آنے پر بھی کوئی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے ۔ دو ججز نااہل قرار دے چکے ہیں تین ججز کی وجہ سے جی آئی ٹی بنی اب یہ تین ججز کیسے خراب ہو گئے ۔ نہال ہاشمی حکومتی مہم کا حصہ ہیں تین ججز کی طرف سے جے آئی ٹی بنانے پر اس وقت تو چھپیاں ڈالی گئی پپیاں لی گئیں ۔ اللہ خیر کرے اب کس کی شلواریں لٹکتی ہیں ۔…(م د + اع)