وہ خاتون جو ہر لمحے ریمنڈ ڈیوس کے ہمراہ رہی، ورثاء میں سے کون سے 2 لوگ تھے جنہوں نے دیت قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔۔ریمنڈ ڈیوس کو 49 دنوں بعد رہائی کیسے ملی؟ اُردو پوائنٹ کی خصوصی پیشکش

Fahad Shabbir فہد شبیر اتوار 2 جولائی 2017 21:22

وہ خاتون جو ہر لمحے ریمنڈ ڈیوس کے ہمراہ رہی، ورثاء میں سے کون سے 2 لوگ ..
لاہور (مترجم ۔رخشان میر۔اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔2جولائی۔2017ء)
ریمن ڈیوس کی کتاب کے سب سے اہم حصہ کا اردو ترجمہ.  
میرے مقدمے کی سماعتوں کے دوران، کارمیلا وہ واحد خاتون تھیں جنہیں میں ہمیشہ یاد رکھوں گا. وہ شروع
 سے ہی میرے ساتھ رہیں اور قدم قدم پر میرے لئے لڑتی رہیں. وہ میرے مقدمے کی انتھک وکیل تھیں اور مجھے ان اپ پورا اعتماد  تھا کہ وہ بری چیزوں کو بہتر بنا سکتی ہیں.

وہ دن رات میرے مقدمے پر کام کرتی رہیں. پیشی کے دوران انھیں اپنے کٹہرے کے سب سے قریب پاکر مجھے حیرت نہیں ہوئی، جتنا قریب کوئی ہوسکتا تھا وہ تھیں. میں نے انھیں دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور انکی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی...
یہاں کیا چل رہا ہے؟ کارمیلا .

(جاری ہے)


وہ قانون شریعت کا سہارا لے رہے ہیں. رے
مجھے یقین نہیں ہوتا کہ انہوں نے ایسا کیا. اب بس  میری کہانی ختم؟ کیا اب وہ مجھے اس کورٹ یارڈ میں گھسیٹیں گے اور پتھر مار مار کر ہلاک کر دیں گے.

ہے نا؟
نہیں رے، یہ قصاص ہے. قانون شریعت میں دیت دینے کی اجازت بھی تو دیتا ہے، جو کہ  مقتولین کے لواحقین لینے پر رضامندی ظاہر کر چکے ہیں.
میں نے اسکی زبان سے یہ الفاظ نکلتے ہوئے سنے، لیکن انہیں سمجھنے سے قاصر رہا. قصاص؟ دیت؟ یہ کیا ہیں ؟
قصاص سے مراد آنکھ کے بدلے آنکھ ہوتا ہے. جرم کرنےکوئی والے کو بھی ویسی ہی سزا دی جاتی ہے، جو لوگ کسی کو قتل کرتے ہیں تو انھیں بھی قتل کر دیا جاتا ہے.
میں نے اپنا سانس نگلا، ایک پل کے لئے مجھے لگا کہ یہی میرا مقدر ہے.

ایک امریکی جاسوس ہونے کے بعد میں اس سے اچھے کی توقعہ کر بھی کیسے سکتا تھا. مذہبی شدت پسندوں نے سڑکوں اور گلیوں پر احتجاج کر کہ اپنے اغراض و مقاصد واضح کر دئے تھے. وہ مجھے مرا ہوا دیکھنا چاہتے تھے، وہ آنکھ کے بدلے آنکھ چاہتے تھے. وہ قصاص ہی چاہتے تھے. بلکہ وہ قصاص کا مطالبہ ہی کررہے تھے.
کارمیلا نے یقینن میری آنکھوں میں خوف دیکھ لیا تھا، وہ تیزی سے بولی.

قانون شریعت میں دیت بھی تو ہے. "خون کی رقم". مقتولین کے خون کی رقم انکے ورثہ کو ادا کی جاتی ہے اگر وہ رضا مندی ظاہر کردیں. اور پھر مجرم کو آزاد کر دیا جاتا ہے. اور یہی ہم کرنے والے ہیں. مقتولین کے گھر والے راضی ہو چکے ہیں اور ہم انھیں رقم ادا کرنے والے ہیں. رے پھر تم آزاد ہو جاؤ گے. وہ پل بھر کے لئے رکی اور اس بات پر زور دیا. رے تم آزاد ہونے جا رہے ہو!
میں یہ سننے کی امید نہیں کررہا تھا.

اور مجھے یہ باتیں ہضم کرنے کے لئے بھی ایک سیکنڈ لگ گیا. میں باہر نکلنے والا ہوں ؟ کیا میں رہا ہونے والا ہوں؟ یہ ممکن نہیں لگ رہا تھا. کیونکہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ مجھے امید دلوائی گئی کہ میں چھوٹنے والا ہوں. جب تک میرے قدم امریکی مٹی پر نا پڑتے میں خوشی کا جشن نہیں منانا چاہتا تھا. میں محتاط رہنا چاہتا تھا اور ایسی کسی بھی شرارات یا فریب دہی پر نظر رکھنا چاہتا تھا جو پاکستانی میرے ساتھ کرنا چاہتے تھے.
اور کارمیلہ نے جو کہا، ایسا لگا کہ میری آزادی کا وقت آچکا ہے لیکن مجھے اسکی آواز پسند نہیں آئی.

میں نے اسے کہا کہ ہمیں یہاں سے باہر نکلنے کے لئے پیسے نہیں دینے چاہیں، میں نے کچھ غلط نہیں کیا.
نہیں رے! تم نہیں سمجھو گے، ہمیں پیسے دینے ہونگے، اسکے سوا یہاں سے نکلنے کا اور کوئی راستہ نہیں ہے. ہم نے تمام طریقے دیکھ لئے ہیں پر اس کے سوا کچھ بھی ممکن نہیں ہے بس یہی ایک ذریعہ ہے.ہمیں یہی کرنا ہوگا، ہمیں یہی کرنا ہوگا!
اگر کوئی اور مجھے یہ مشورہ دیتا تو میں یقینن اسکے ساتھ بحث میں پڑ جاتا، مگر مجھے کارمیلہ پر مکمل بھروسہ تھا، اس نے کہا ہمیں یہ ڈیل کرنی چاہئے تو پھر مجھے  ضرور یہ ڈیل کرنی چاہیے تھی.

میں نے رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ، آپ جیسا کرنا چاہیں، کریں!
اب مجھے کچھ اعطمنان ہوا، مگر یہ کافی نہیں تھا کیونکہ میں یہ نظام قانون میرے لئے مکلمل طور پر بیگانہ تھا.
جج نے آواز دی، مقتولین کے لواحقین کو بلایا جائے، جو باہر ٹھہرے ہوئے تھے. صرف چند عینی شاہدین کو کمرہ عدالت میں ٹھہرنے کی اجازت تھی، سب نے بڑبڑاتے ہوئے اپنے سر کمرہ عدالت کے پچھلے دروازے کی طرف کئے، دروازہ کھلتے ہی دو مقتولوں کے 18 رشتے دار کمرے میں داخل ہوئے، وہ پاکستانی  جنہیں میں نے قتل کیا تھا.

پولیس اہلکار لمبی قطار بنا کر میرے سامنے  کھڑے تھے، اس لئے نا میں مقتولین کے ورثہ کو ٹھیک طرح دیکھ پایا اور نا وہ مجھے ٹھیک طرح دیکھ سکے..
میں نے ایک جھلک کارمیلا کو دیکھا تاکہ بہتر اندازہ لگا سکوں کہ کمرہ عدالت میں کیا ہو رہا ہے. کارمیلہ اپنے لب مثل رہی تھی، مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ کچھ پریشان  ہے.
کیا ہوا کارمیلا ؟
ورثہ میں سے ہر ایک شخص کو ماننا ہوگا، اگر ان میں سے ایک نے بھی اپنی رضامندی ظاہر نا کی تو سارا کام بگڑ جائے گا..


کارمیلا نے ہجوم کی طرف دیکھا، خواتین خوش نہیں دکھائی دے رہی تھیں..
جب قصاص کا دیت کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے تو یہ پاکستان میں بہت متنازع سمجھا جاتا ہے جیسا کہ یہ پاکستان میں ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے جو غیرت کے نام پر قتل کے مرتکب ہوتے ہیں. اسلامی بنیاد پرست کہتے ہیں کہ جو خاتون آپکے خاندان کے لئے باعث ذلت بنے (زیادہ تر زنا میں ملوث ہونے کی وجہ سے) اسے مار ڈالنے سے گھر کی عزت واپس آجاتی ہے.

اسی لئے پاکستان میں ہر سال  تقریباً 1000 خواتین کو قتل کیا جاتا ہے. ایسے قانون پر انحصار کرنا یقینن میری پہلی ترجیح نہیں تھا. ایسا شخص جو ریاست اور چرچ کو عیلحدہ دیکھتا ہے، اسے قانون شریعت ناخوشگوار محسوس ہوا. لیکن چونکہ کارمیلہ نے مجھے یقین دہانی کروا دی تھی اس لئے مجھے اس معاملے میں زیادہ نہیں بولنا تھا..
مجھے بعد میں پتا چلا کہ یہ منصوبہ چند ہفتے قبل تیار کیا گیا تھا.

کچھ رپورٹس کے مطابق یہ جان کیری کی امریکا کےلئے پاکستانی سفیر  حسین حقانی سے ملاقات کے وقت تیار کیا گیا، کوئی چار  ہفتے قبل.. کچھ رپورٹس کے مطابق یہ منصوبہ جنرل پاشا اور سفیر منٹر کی ملاقات کے دوران بنایا گیا تھا. افواہوں کے مطابق پاک فوج کا اس میں  ہاتھ تھا اور صدر زرداری اور  نواز شریف کا بھی اسکا حصہ تھے . جیسے ہی پیٹر سٹریسر کو لیگل کاؤنسل کو اسمبل کرنے کا اختیار ملا، وہ یہ آئیڈیا سامنے لے کر آیا.

بخاری نے بھی مدد کی. آخر میں کسی ایک کو اس منصوبے کا کریڈٹ نہیں دینا چاہیے، یہ یقینن ایک پورے گروپ کی محنت کا نتیجہ تھا. دونوں اطراف سے جو بھی اس میں شامل تھا وہ یہ جانتا تھا کہ یہ دونوں ممالک کو سفارتی بحران سے نکالنے کا واحد حل ہے. سب جانتے تھے پر مجھ سے یہ سارا معاملہ آخری لمحات تک چھپا کر رکھا گیا.
جیسے ہی یہ منصوبہ تیار ہوا، اب یہ آئی -ایس-آئی پر تھا کہ اسے کیسے لے کر چلنا ہے.

ایک پاکستانی افسر مجھے آخر تک بےیقینی کی حالت میں رکھنا چاہتا تھا. اسی دوران جنرل پاشا اس منصوبے کو کامیاب کرنے کے لیۓ مکمل طور پر پرامید تھے. وہ 18 مارچ کو اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے والے تھے، لیکن انہوں نے اپنے  عہدے پر مزید ایک سال براجمان رہنے کی رضامندی ظاہر کردی . پراسیکیوٹر (پیروی کرنے والا) کو تبدیل کرنے کے ذمہ دار وہی تھے.

ایک رپورٹ کے مطابق اسد منظور بٹ  راجہ ارشاد کے ساتھ کیس بنیاد پرست جماعت اسلامی کے حساب سے لڑ رہا تھا. راجہ ارشاد کسی مذہبی جماعت کی نسبت آئی-ایس -آئی کی طرف زیادہ مائل تھا.
چونکہ یہ منصوبہ مقتولین کے 18 رکنی خاندان کی رضامندی  پر مشتمل تھا، آئی-ایس -آئی آیجنٹ دیت قبول کرنے کے لئے ان پر جتنا زور ڈال سکتے تھے ڈال رہے تھے. اپنے وکیل بٹ کی مدد سے ان میں سے کچھ ورثہ نے دیت قبول کرنے سے انکار بھی کردیا تھا.

ان میں سے ایک جس نے صاف صاف انکار کیا وہ محمد فہیم کا بھائی وسیم شمزاد تھا. بنیاد پسند جماعت اسلامی والوں نے جب اسکے گھر آکر اسے دیت کی رقم لینے سے منع کیا تو وہ کئی دن پیشی پر بھی نا آیا. دیت کی رقم سے اختلاف کرنے والا ایک  اورشخص  مشہود رحمان تھا، جسکا بھائی اس ایس-یو-وی تلے کچلا گیا تھا جو مجھے بچانے کے لئے پہنچی تھی. اس نے کچھ عرصہ پہلے ہی برطانیہ سے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی.

میرا ٹرائل شروع ہوتے ہی اس نے کہا میں سیدھا سیدھا رقم وصول نہیں کرسکتا، یہ میرے خاندان کی عزت کا سوال ہے. پہلے ہمیں کچھ انصاف بھی تو ملنا چاہیے.
شدت پسند جماعت اسلامی والے انکے کان بھر رہے رہے تھے اور دیت نا لینے پر بضد کرنے والے رشتہ دار اور وہ وکیل اس ہارڈ لائن اسلامی اجینڈے کی تصدیق کر رہے ہے.
 آئی-ایس -آئی کے افسران نے 14 مارچ  کو مداخلت کی.

ان 18 فیملی ممبران کو اپنی حراست میں لے لیا. 2 دن بعد  16 مارچ کو میری سماعت تھی جو میرے مقدر کا فیصلہ کرنے والی تھی... ان میں سے کسی سے بذریعہ فون رابطہ نہیں ہو رہا تھا. انکے گردو نواح میں رہنے والوں نے تصدیق کی کہ وہ غائب ہو چکے ہیں.
 فیضان حیدر کے رشتےدار اعجاز احمد نے بتایا کہ اسکے  دروازے پر تالا  لگا ہوا ہے... انکے موبائل فون بھی بند ہیں.


16 مارچ سے ایک رات قبل آئی-ایس -آئی ایجنٹ ورثہ کو اٹھا کر کوٹ لکھپت جیل میں لے آئے اور اس ڈیل کو  تسلیم کرنے پر دباؤ ڈالنے لگے. اگر انہوں نے مجھے معاف کرنے پر رضامندی ظاہر کی تو بدلے میں انھیں بہت بڑی رقم دینے کی یقین دہانی کروائی گئی. رضامندی ظاہر نا کرنے کی صورت میں انھیں کن حالات کا سامنا کرنا پڑے گا وہ بھی انھیں اسی صبح بتا دیا گیا تھا.

انہیں کئی گھنٹے گن پوائنٹ پر رکھا گیا اور میڈیا کو کچھ بھی بتانے سے سختی سے منع کیا گیا. جب انکا وکیل عدالت پوھنچا تو اسے بھی اسی ٹریٹمنٹ کا سامنا کرنا پڑا.اس وکیل نے بی-بی-سی کو بتایا کہ مجھے کیس کی کاروائی کا حصہ نہیں بننے دیا گیا اور نا ہی مجھے مووکل کو دیکھنے اور ملنے کا موقع دیا گیا. اس نے مزید کہا کہ مجھے اور میرے ساتھی  کو 4 گھنٹے زبردستی حراست میں رکھا گیا لیکن کسی بھی کلاینٹ کو دیکھنے اور بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی.
16 مارچ کو پیشی کے دن انکے چہروں سے واضح ہو رہا تھا کہ وہ انسان جو ایک مہینہ انکے ملک کے پیچیدہ قانون سمجھنے میں انکی رہنمائی کرتا رہا اسے جب انسے ملنے نہیں دیا گیا تو اور ایک ایسی ڈیل ماننے پر زور دیا گیا جسکا حصہ وہ نہیں بننا چاہتے تھے، تو ان پر کیا بیتی...

کارمیلہ کے مشاہدے مطابق خواتین کے لئے یہ سب سے مشکل کام تھا. کچھ کی آنکھوں میں تو آنسو بھی نمایاں تھے. اور کچھ تو سسکیاں بھی لے رہی تھیں.
انکے نئے وکیل ارشاد نے ایک دستخط شدہ  کاغذ جج کو دیا جس کے مطابق 18 کے 18 لوگ مجھے معاف کرنے اور دیت کی رقم وصول کرنے پر رضا مندی ظاہر کر چکے تھے.  جج نے انھیں کہا کہ اپنی شناخت ظاہر کرنے کے لیے ڈاکومنٹ لے کر آئیں اور پھر ایک ایک کو رقم کی رسید دی.

130,000 ڈالر ایک کے لئے جو کہ کل  2,340,000 ڈالر بنے. پاکستان میں اس سے قبل دیت میں کبھی اتنے پیسے نہیں دئے گئے تھے...
ضروری کاغذی کاروائی مکمل کرنے کے بعد جج نے ان سب لوگوں سے پوچھا کہ آپ میں سے کسی پر دباؤ ڈالا گیا ؟ سب نے ' نہیں' میں جواب دیا.
اس دن کی پیشی مکمل طور پر اردو میں ہوئی تاکہ مقتولین کے لواحقین کو آسانی رہے. وہاں پر جو بھی ہو رہا تھا میری سمجھ سے باہر تھا.

خوش قسمتی سے کارمیلہ وہاں پر موجود تھی جو میری مکمل رہنمائی کررہی تھی..
کارمیلہ بولی: سب نے دیت کی رقم وصول کر لی ہے، رے ! اب تم یہاں سے باہر نکل رہے ہو..
واقعی ؟؟؟ کب ؟؟؟
جیسے ہی ہم اپنا کام مکمل کر لیں گے، تم ایک نئی گاڑی میں یہاں سے نکلو گے جو باہر گیٹ پر تمہارا انتظار کر رہی ہے. ڈییل تمہارے ساتھ ایئر پورٹ جائے گا اور تمہارا میڈیکل ٹیسٹ بھی کرواے گا جسکی تمہیں ضرورت ہے.

پھر تم جہاز میں بیٹھو گے اور اپنے گھر چلے جاؤ گے.
وقت بہت تیزی سے گزرا، میں تھوڑا گھبرایا ہوا تھا.. یہ ایک سست پراسیس تھا، میرا ذہن اسکے مطابق ڈھل چکا تھا. میں توقع کررہا تھا کہ ہم کمرہ عدالت سے نکلنے کے بعد  سیدھا ایک اور میٹنگ کا حصہ بن جائیں گے. اب یہ سب ختم ہو رہا تھا تو یہ میرے لئے کسی جھٹکے سے کم نہیں تھا. جیسے کئی گھنٹے کسی گرم ٹب میں بیٹھنے کے بعد ٹھنڈی برف میں جانا..


ایک منٹ. کیا میں واقعی گھر جارہا ہوں؟
ہاں رے، تم آزاد ہو، تم گھر جارہے ہو !
میں اس لمحے میں ڈوب گیا، 49 دنوں سے میں اپنے جذبات میں ڈوبا ہوا تھا، نا اوپر اور نا ہی نیچے، میں اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار رکھے ہوئے تھا کہ میں کہ مجھے دیر  تک ان حالات کا سامنا کرنا ہے. اور اس لمحے میں نے اپنے جذبات کو سمبھالا.
جس لمحے میں نے سوچا کہ اب میں واقعی  آزاد ہونے والا ہوں، یہ کوئی ظالم لطیفہ نہیں تھا.

میں نے اپنا گارڈ اتارا اور اپنے تمام پھنسے ہوئے جذبات کو آزاد کیا. خوشی، غم، اداسی کو واپس آنے دیا. میرے پیشے اور میری جسمانی وضح قطع کے مطابق تو میں ایک سخت انسان لگ رہا تھا. لیکن میری زندگی کے اس سخت ترین اور کمزور ترین لمحات میں میری تمام تر سختی غائب ہو گئی تھی اور میں صرف ایک شوہر اور باپ کی کے روپ میں آگیا، جو صرف گھر جانا چاہتا تھا.
اور ہاں، میں رویا. میں ایک بچے کی طرح رویا!

متعلقہ عنوان :