وزیراعظم نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے بیشتر سوالات کے اطمینان بخش جوابات نہیں دے سکے۔ وزیراعظم زیادہ تر مائل بہ گریز اور خیالات میں محو رہے، ان کے بیان کا زیادہ تر حصہ سنی سنائی بات پر مبنی تھا۔رپورٹ کے مندرجات

نوے کی دہائی میں لندن گیا تو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں قیام کیا مجھے معلوم تھا کہ حسن اور حسین ان اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر تھے، دونوں کے قیام کے تمام اخراجات اس رقم سے پورے ہوتے جو میرے والد انہیں بھجوایا کرتے، میں جانتا ہوں ہم رینٹ، سروس چارجز، اور دیگر سہولیات کے پیسے ادا کررہے تھے لیکن مجھے اس بات کا علم نہیں کہ ان فلیٹس کا کرایہ ادا کیا جارہا تھا یا نہیں۔جے آئی ٹی کے سامنے ریکارڈ کرواگیا بیان

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 12 جولائی 2017 11:46

وزیراعظم نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے بیشتر سوالات کے اطمینان بخش جوابات ..
اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 جولائی۔2017ء) پاناما لیکس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے کہا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے بیشتر سوالات کے اطمینان بخش جوابات نہیں دے سکے۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے وزیراعظم ٹال مٹول اور قیاس سے کام لیتے رہے اور ان کا رویہ عدم تعاون کا رہا ۔

پبلک کی جانے والی جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیراعظم نوازشریف کی جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں رپورٹ کے مطابق دوران انٹرویو نوازشریف زیادہ تر مائل بہ گریز اور خیالات میں محو رہے، ان کے بیان کا زیادہ تر حصہ سنی سنائی بات پر مبنی تھا۔وزیراعظم کے بیان پر تحقیقاتی ٹیم کے تجزیے میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم نواز شریف غیرواضح جوابات دے کر بیشتر سوالات کو رد کرتے رہے یا حقائق کو چھپانے کے لیے تفصیلات یاد نہ ہونے کا اظہار کرتے رہے۔

(جاری ہے)

جے آئی ٹی کو دیئے گئے بیان میں نواز شریف نے اپنی ابتدائی زندگی، سیاست میں آمد، اور تین دہائیوں پر مشتمل سیاسی کیریئر کے دوران اپنے عہدوں کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے دعوی کیا تھا کہ ان کی ملکیت میں موجود یا انہیں حاصل ہونے والے تمام اثاثہ جات انکم ٹیکس ریٹرنز اور مالی بیانات میں واضح ہیں۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس ریٹرنز اور مالی بیانات میں ظاہر کردہ اثاثہ جات کے علاوہ ان کی ملکیت میں کچھ اور موجود نہیں ۔

جے آئی ٹی کو ریکارڈ کروائے گئے اپنے بیان میں وزیراعظم نے کہا ہے کہ ابتدائی طور پر وہ اپنے مرحوم والد کی جانب سے پاکستان میں قائم کردہ کمپنیوں کے شیئرہولڈر یا ڈائریکٹر تھے لیکن تقریباً تین دہائیوں سے میں ان میں سے کسی کمپنی کا ڈائریکٹر نہیں رہا اور 1985 کے بعد سے کسی بھی صورت میں ان کمپنیوں کے کاروبار میں فعال کردار ادا نہیں کیا ۔انہوں نے مزید کہا کہ میں 1981 میں وزیر خزانہ بنا، حالانکہ میں کچھ کمپنیوں کا ڈائریکٹر تھا لیکن 1981 کے بعد سے میں کوئی کاروبار نہیں سنبھال رہا، 1998 کے دوران میں نے خود کو کاروبار سے مکمل طور پر علیحدہ کرلیا ۔

نواز شریف کا اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ کاروبار سے علیحدگی کا مطلب خود کو انتظامی امور سے الگ کرنا تھا نہ کہ کمپنی کے مالی مفادات سے، کیونکہ مالی مفادات سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد کیسے گزارا کیا جاسکتا ہے۔لندن میں موجود جائدادوں کے حوالے سے وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ وہ 1989 اور نوے کی دہائی میں لندن گئے تھے تو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں قیام کیا تھا مجھے معلوم تھا کہ حسن اور حسین جو لندن میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، وہ ان اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر تھے، ان دونوں کے قیام کے تمام اخراجات اس رقم سے پورے ہوتے جو میرے والد انہیں بھجوایا کرتے، میں جانتا ہوں ہم رینٹ، سروس چارجز، اور دیگر سہولیات کے پیسے ادا کررہے تھے لیکن مجھے اس بات کا علم نہیں کہ ان فلیٹس کا کرایہ ادا کیا جارہا تھا یا نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان معاملات کو حسین دیکھتا تھا اور وہ بہتر جانتا ہے، میں یہ جانتا ہوں کہ یہ انتظام شیخ الثانی اور میرے والد نے کیا تھا، تاہم مجھے یہ نہیں پتہ کہ بیئریئر سرٹیفکیٹس کس طرح منتقل ہوئے۔وزیراعظم نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی تقاریر میں جب یہ کہا تھا کہ وہ وقت آنے پر تفصیلات بتائیں گے تو ان کی مراد قطری فیملی اور اپنے والد کے درمیان ہونے والی سرمایہ کاری نہیں تھی۔

گارجین میں شائع ہونے والی رپورٹ میں شامل اپنی اہلیہ کے بیان پر نواز شریف کا کہنا تھا میرا جواب یہ ہے کہ کئی دفعہ ایسی باتیں لاعلمی کی وجہ سے کہہ دی جاتی ہیں۔ خیال رہے کہ غیر ملکی اخبار دی گارجین کی رپورٹ میں نواز شریف کی اہلیہ کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس 2000 میں حسن اور حسن کے لیے خریدے گئے، جب وہ پڑھائی کے لیے لندن میں موجود تھے۔

حسین نواز کی جانے سے دیئے جانے والے بھاری رقم کے تحفے پر ان کا اپنے بیان میں کہنا تھا کہ مجھے اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں لگتی کہ میرے بیٹے حسین نے مجھے رقم تحفے میں بھجوائی جسے میں نے خود پر خرچ کیا یا اپنی بیٹی مریم کو دے دیا، یہ پاکستان آنے والا غیرملکی زرمبادلہ ہے اور رقم باقاعدہ بینکنگ چینلز کے ذریعے بھیجی گئی۔جے آئی ٹی کی جانب سے جب پوچھا گیا کہ اپنی تقاریر میں آپ نے کہا تھا کہ عزیزیہ اور گلف اسٹیل کا تمام ریکارڈ موجود ہے مگر بعد ازاں سپریم کورٹ میں آپ کے وکیل کا کہنا تھا کہ ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، کیا آپ اس تضاد کی وضاحت کرسکتے ہیں؟تو وزیراعظم نوازشریف نے جواب دیا کہ مجھے یقین نہیں، شاید میں نے اسپیکر کو ریکارڈ فراہم کیا ہو، لیکن میں اس حوالے سے یقین سے نہیں کہہ سکتا۔

ان سے دوبارہ سوال پوچھا گیا کہ آپ نے کہا تھا کہ فریقین 6، 7 اور 8 نے دوران کارروائی گلف اسٹیل اور عزیزیہ کے حوالے سے جو کچھ سپریم کورٹ میں جمع کرایا ہے آپ اس کی حمایت کرتے ہیں۔ کیا آپ نے ذاتی طور پر یہ دیکھا کہ ان فریقین نے سپریم کورٹ میں کیا جمع کرایا ہے یا آپ کی معلومات اہل خانہ کے درمیان ہونے والی بات چیت پر مبنی ہے؟تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے ان کے جمع کرائی چیزیں نہیں دیکھیں، میری معلومات اہل خانہ کے درمیان ہونے والی بات چیت کی بنیاد پر قائم ہے لیکن انہوں نے جو کچھ جمع کرایا ہے میں اس کی توثیق کرتا ہوں۔

جے آئی ٹی نے انہیں سوال کیا کہ کیا آپ کے پاس ایسی کوئی دستاویزات موجود ہیں جو آپ آج لائی گئی دستاویزات کے علاوہ پیش کرنا چاہیں؟ جس کے جواب میں نوازشریف نے کہا کہ مزید کوئی دستایزات پیش کرنے کے لیے موجود نہیں، ہم پہلے ہی اپنے پاس موجود تمام دستاویزات پیش کرچکے ہیں۔جے آئی ٹی نے انہیں سوال کیا کہ 1999 میں کوئینز بینچ ڈویڑن نے ایون فیلڈ جائدادوں پر انتباہ جاری کیا تھا جسے تصفیے کی بنیاد پر ہٹادیا گیا، اس تصفیے کی شرائط سے متعلق آپ کیا جانتے ہیں؟وزیراعظم نے جواب دیا میں نے اس بارے میں سنا ہے لیکن مجھے تصفیے کی شرائط کا علم نہیں۔

جے آئی ٹی نے انہیں سوال کیا کہ آپ نے 2005 میں خاندانی اثاثوں کے تصفیے کا بھی حوالہ دیا تھا۔ کیا گلف اسٹیل سے حاصل آمدن کی سرمایہ کاری کا معاملہ ایون فیلڈ جائدادوں کے حوالے سے دیکھا گیا تھا؟وزیراعظم کی طرف سے بتایا گیا کہ ہاں، شاید اس حوالے سے بات چیت ہوئی تھی اور کیونکہ یہ فلیٹس حسن اور حسین کی ملکیت میں رہے، میرے خیال سے ان کا مالک حسن ہے، لیکن میں پورے یقین سے ایسا نہیں کہہ سکتا۔

جے آئی ٹی نے انہیں سوال کیا کہ حسین کا دعویٰ ہے کہ اپارٹمنٹس ان کے ہیں مگر عملی طور پر ان میں سے ایک اپارٹمنٹ میں کئی دہائیوں سے حسن رہائش پذیر ہیں، کیا آپ کو یہ کچھ عجیب نہیں لگتا؟انہوں نے جواب دیا کہ بھائیوں کے درمیان ایسا ہونا غیرمعمولی نہیں ہے۔جے آئی ٹی نے انہیں سوال کیا کہ کیا آپ حسین نواز کی کمپنیوں کے حوالے سے ان کے اور مریم نواز کے درمیان دستخط کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں جانتے ہیں؟جواب دیا گیا مجھے مریم صفدر کی جانب سے حسین نواز کی دستخط کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ کی کوئی معلومات نہیں۔

جے آئی ٹی نے انہیں سوال کیا کہ کیا آپ نیشنل بینک آپ پاکستان کے سعید احمد کو جانتے ہیں اور کیا آپ کا ان کے ساتھ کوئی کاروبار تھا؟جواب دیا گیا میں سعید احمد کو طویل عرصے سے جانتا ہوں لیکن میرا ان کے ساتھ کوئی کاروباری تعلق نہیں۔جے آئی ٹی نے انہیں سوال کیا کہ کیا آپ قاضی فیملی کو جانتے ہیں؟جواب دیا گیا میں انہیں نہیں جانتا، میں کافی لوگوں سے ملتا ہوں اور مجھے سب یاد نہیں رہتے۔

جے آئی ٹی نے انہیں سوال کیا کہ کیا آپ شیخ سعید کو جانتے ہیں؟جواب دیا گیا ہاں میں انہیں طویل عرصے سے جانتا ہوں، لیکن میرا ان سے کوئی کاروباری تعلق نہیں۔جے آئی ٹی نے انہیں سوال کیا کہ حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں آپ کی جانب سے 02-2001 میں نیب کے ساتھ ایک تصفیہ کیا گیا جبکہ چوہدری اور رمضان ملز سے لیے گئے قرضوں کے ذریعے ادائیگی کی گئی، مہربانی کرکے ہمیں اس تصفیے کی تفصیلات سے آگاہ کریں؟جواب دیا گیا مجھے اس بات کا نہیں معلوم کی قرضہ لیا گیا تھا، مجھے اس معاملے کے بارے میں کچھ نہیں پتہ۔

جے آئی ٹی نے انہیں سوال کیا کہ کیا آپ نے اپنے اہل خانہ کو بیرون ملک رقوم بھجوائیں؟جواب دیا گیانہیں، میں نے نہیں بھجوائیں۔جے آئی ٹی نے انہیں سوال کیا کہ ہل میٹلز سے ملنے والی رقم کا کچھ حصہ سیاسی فنڈنگ کے لیے استعمال کیا گیا؟وزیراعظم نوازشریف نے جواب دیا نہیں، لیکن اگر میں نے ایسا کیا تو یہ جرم ہے۔جے آئی ٹی نے انہیں سوال کیا کہ کیا یہ غیرملکی فنڈنگ میں شمار نہیں ہوگا؟جس پر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔