گلف سٹیل معاہدے اور منروا کمپنی سے متعلق نئی دستاویزات حکومت کیلئے مزید مشکلات پید اکر سکتی ہیں

جے آئی ٹی میں طارق شفیع کے بیانات اور منروا کمپنی کے جواب کی روشنی میں نئی دستاویزات قطری کے خط سے بھی بڑا مذاق ثابت ہو سکتی ہیں سلمان اکرم یہ دستاویزات پہلے بھی سپریم کورٹ میں جمع کروا چکے ہیں ، اب انہیں الگ سے پیش کرکے ثابت کرنا چاہتے تھے ہمارے پاس 1980ء تک کا ریکارڈ بھی موجود ہے،ذرائع شریف خاندان سمیت ان کے وزراء منی ٹریل کی بجائے سپریم کورٹ میں اپنی ہیرا پھیریوں کی ٹریل جمع کروا رہے ،آئینی و قانون ماہرین

بدھ 19 جولائی 2017 23:50

گلف سٹیل معاہدے اور منروا کمپنی سے متعلق نئی دستاویزات حکومت کیلئے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 جولائی2017ء) گلف سٹیل معاہدے اور منروا کمپنی کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانیوالی نئی دستاویزات حکومت کے لئے مزید مشکلات پید اکر سکتی ہیں۔ جے آئی ٹی میں طارق شفیع کے دیئے گئے بیانات اور منروا کمپنی کے جواب کی روشنی میں نئی دستاویزات قطری کے خط سے بھی بڑا مذاق ثابت ہو سکتی ہیں ۔

حکمران خاندان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کی طرف سے سپریم کورٹ میں جو دستاویزات آج جمع کروائی جائیں گی درحقیقت وہ بھی ہیرا پھیری کی ایک ٹریل ہے۔ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ سلمان اکرم راجہ یہ دستاویزات پہلے بھی سپریم کورٹ میں جمع کروا چکے ہیں لیکن اب انہیں الگ سے پیش کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ہمارے پاس 1980ء تک کا ریکارڈ بھی موجود ہے۔

(جاری ہے)

حکمران خاندان کے وکیل جس قسم کے سوالات اٹھا رہے ہیں ان سے محسوس کیا جا رہ اہے کہ سپریم کورٹ عوام کو سچ دکھانے کے لئے جے آئی ٹی کے دو یا تین ممبران کو بلا کر یہ سوال انکے سامنے بھی رکھ سکتی ہے تاکہ حکمران خاندان کے وکیل یہ مؤقف کہ جے آئی ٹی میں بھی یہ دستاویزات پیش کی گئی تھیں لیکن جے آئی ٹی نے یہ لینے سے انکار کر دیا تھا۔ اسکا اصل جواب جے اآئی ٹی کے ممبران ہی دے سکتے ہیں۔

سلمان اکرم راجہ دستاویزات عدالت عظمیٰ میں جمع کروانے جا رہے ہیں اس میں آہلی سٹیل مل کا معاہدہ بھی شامل ہے۔ دبئی حکومت نے جے آئی ٹی کو تحریری طور پر جواب دیا تھا کہ ہمارے ریکارڈ میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے اور ان دستاویزات پر جو نوٹرائزیشن کی مہر لگی ہوئی وہ بھی درست نہیں ہے اور یہ کہ 12ملین درہم کے حوالے سے بھی ہمارے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہیں۔

دبئی کا محکمہ انصاف اس کو پہلے ہی رد کر چکا ہے۔ سلمان اکرم راجہ کے لئے ان دستاویزات کو رد کرنے کے حوالے سے وزیراعظم میاں نواز شریف کے کزن طارق شفیع کا جے آئی ٹی میں دیا گیا بیان ان دستاویزات کی مکمل نفی کرتاہے۔ طارق شفیع نے جے آئی ٹی کی تفتیش کے دوران بیان دیا تھا کہ 12ملین درہم کا یہ معاہدہ زبانی تھا اور ہم نے 6اقساط میں کیش کی صورت میں یہ رقم دبئی سے وصول کی اور قطری شہزادے کے فرنٹ مین کو فراہم کر دی اور قطری شہزادے نے ہر بار ایک نئے آدمی کو رقم وصول کے لئے بھیجا تھا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ 12ملین درہم کی کوئی رسید ہی موجود نہیں ہے سلمان اکرم راجہ کی طرف سے پیش کی جانیوالی دستاویزات میں جو جے پی ایس کمپنی ظاہر کی گئی ہے وہ ایک سروس فراہم کرنے والی کمپنی ہے۔ یہ کمپنی کہتی ہے کہ حسین نواز اور حسن نواز نیلسن اور نیسکول کے اصل مالک ہیں جبکہ جے آئی ٹی نے منروا کمپنی کو جو لیٹر لکھا اس کے جواب میں بتایا کہ مریم صفدر ہی نیلسن اور نیسکول کی اصل مالک ہیں۔

گزشتہ روز بھی سماعت کے موقع پر عدالت کی طرف سے حکمران خاندان کے وکلاء کو طنزاً یہ کہا گیا تھا کہ کل کوئی نئے کاغذات بنا کر نہ لے آنا کیونکہ عدالت یہ بھی کہہ چکی ہے کہ شریف خاندان کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں ہے۔ وزیراعظم نواز شریف اور انکے بال بچوں کو بچانے کے لئے قطری خط نے کافی بدنامی حاصل کی تھی اور اب ایک طرف سلمان اکرم راجہ دبئی سے نئے خطوط کا دعویٰ کر رہے ہیں اور جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے جو خط سپریم کورٹ میں جمع کروایا ہے اس میں انہوں نے کہا کہ مجھے دبئی کے حکمران شیخ مبارک النیہان نے ذاتی ملازم رکھا تھا اور اس مد میں ایک ارب روپے ادا کئے لیکن حیرت انگیز طور پر وزیر خزانہ اسحاق ڈارنے جو خط سپریم کورٹ میں پیش کیا اس میں مبارک النہان کی ولدیت بھی غلط لکھ دی۔

اور مبارک النیہان کے انگریزی حروف کے ہجے بھی غلط لکھے۔ سپریم کورٹ نے وزیر خزانہ کے خط سمیت دیگر ریکارڈ ٹرائل کورٹ کو بھیجنے کا عندیہ دیا ہے ۔ آئینی و قانون ماہرین کا کہنا ہے کہ شریف خاندان سمیت ان کے وزراء منی ٹریل کی بجائے سپریم کورٹ میں اپنی ہیرا پھیریوں کی ٹریل جمع کروا رہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :