3 کے الیکشن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں تھی ، ہم الیکشن ہارے نہیں تھے ہمیں امپائر کے اشارے پر ہرایا گیا ، تحفظات کے باوجود ہم نے نتائج قبول کئے تاکہ جمہوریت ڈی ریل نہ ہو، آنیوالے الیکشن میں کوئی حکیم اللہ محسود نہیں آئیگا

جنرل سیکرٹری عوامی نیشنل پارٹی میاں افتخار حسین کا مرحوم خان محمد افضل خان لالہ کی زندگی پر لکھی جانیوالی کتاب کی تقریب رونمائی کے موقع پر خطاب

اتوار 6 اگست 2017 21:03

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 06 اگست2017ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ2013 کے الیکشن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں تھی ، ہم الیکشن ہارے نہیں تھے بلکہ ہمیں امپائر کے اشارے پر ہرایا گیا لیکن تحفظات کے باوجود ہم نے نتائج قبول کئے تاکہ جمہوریت ڈی ریل نہ ہو تاہم آنے والے الیکشن میں کوئی حکیم اللہ محسود نہیں آئے گا ۔

وہ بروز اتوار باچا خان مرکز میں مرحوم خان محمد افضل خان لالہ کی زندگی پر لکھی جانے والی کتاب کی رونمائی کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

تقریب میں میاں افتخار حسین نے مرحوم افضل خان لالہ کی زندگی پر روشنی ڈالی اور کہا کہ مرحوم افضل خان لالہ نے زمانہ طالبعلمی میں ایک قوم پرست کے طور سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور بہت متحرک رہے انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور گورنمنٹ کالج لاہور اور لاء کالج پشاور سے تعلیم حاصل کی ، وہ سوات بار ایسوسی ایشن کے بانی صدر بھی رہے،بعد ازاں ان کا شمار خان عبدالولی خان کے قریبی ساتھیوں میں ہونے لگا وہ1970میں پہلی دفعہ صوبائی اسمبلی ممبر منتخب ہوئے اور نیشنل عوامی پارٹی کی نمائندگی میں صوبائی کابینہ میں زراعت اور بلدیات کے وزیر بھی رہے، محمد افضل خان لالہ پانچ کتابوں کے مصنف بھی رہے جبکہ انہوں نے مختلف ادوار میں پشتونوں کے مختلف ایشوز پر سیمینار بھی منعقد کرائے وہ قوم پرستوں کے اتحاد ’’ پونم ‘‘ کے مرکزی سربراہ بھی رہے ، محمد افضل خان لالہ کو 2007-8ء کے دوران اس وقت ملکی اور عالمی شہرت حاصل ہوئی جب وہ ملاکنڈ ڈویژن میں طالبان کے ظہور کے بعد سیاسی میدان میں ان کے خلاف ڈٹ گئے اور انہوں نے دوسروں کی طرح علاقہ چھوڑنے سے انکار کیا اسی مزاحمت پر 2007میں ان پر قاتلانہ حملہ کرایا گیا جس سے وہ شدید زخمی ہوئے جبکہ ان کے دو ساتھی شہید ہو گئے ، مگر وہ آخر دم تک اپنے عوام کے ساتھ رہے ، ملک کی سیاسی صورتحال کا ذکر کرتے ہوئے میاں افتخار حسین نے کہا کہ اے این پی واحد سیاسی جماعت تھی جس نے پانامہ پر اصولی مؤقف اپنایا اور اُسی مؤقف پر قائم رہتے ہوئے ہزار تحفظات کے باوجود سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کیا ، انہوں نے کہا کہ ہم الزامات اور انتقامی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ،اور یہ اس ملک کی بد قسمتی رہی ہے کہ یہاں کسی منتخب وزیر اعظم کو اپنی معیاد پوری نہیں کرنے دی گئی ،انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کیلئے سیاستدانوں کو تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتساب کا عمل پارلیمنٹ کے ذریعے کرنا چاہئے ، انہوں نے کہا کہ مسائل کے حل کیلئے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے اور سیاستدانوں کو پارلیمنٹ کا اختیار کسی اور ادارے کو نہیں دینا چاہئے ، میاں افتخار حسین نے کہا کہ عمران خان پہلے پانامہ پر سپریم کورٹ جانے کے حق میں نہیں تھے بعد ازاں یو ٹرن لیا اور کیس عدالت لے گئے جبکہ سپریم کورٹ کا ہر فیصلہ ماننے کا اعلان کرنے والے بعد میں عدلیہ پر تنقید کرنے لگے ، انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ جس کے حق میں فیصلہ ہو وہ عدلیہ کی تعریف اور جس کے خلاف ہو وہ تضحیک شروع کر دیتا ہے، انہوں نے کہا کہ عمران خان اور نواز شریف دونوں کرسی اقتدار کیلئے نبرو آزما ہیں اور جہاں کہیں بھی پختونوں کے حق کی بات ہو دونوں اس کی مخالفت میں یکجا ہو جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا کو نظر انداز کر دیا ہے اور وزارت عظمیٰ کیلئے نجاب کی سیاست کی جا رہی ہے ، میاں افتخار حسین نے کہا کہ ہم نے اپنے دور میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعیصوبے کے حقوق اور شناخت حاصل کی لیکن موجودہ صوبائی حکومت صوبے کے اختیارات اور حقوق کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گئی ہے، انہوں نے کہا کہ الیکشن 2018میں کامیابی اے این پی کا مقدر ہے اور کامیابی کے بعد صوبے میں ترقی کا رکا ہوا عمل دوبارہ شروع کریں گے، انہوں نے تمام پارٹی کارکنوں سے اپیل کی کہ وہ الیکشن مہم کیلئے بھرپور تیاری کریں ۔