اردن کے شاہ عبداللہ کا فلسطین کا دورہ،صدر محمود عباس سے ملاقات کریں گے

پیر 7 اگست 2017 18:33

مقبوضہ بیت المقدس(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 07 اگست2017ء) اردن کے حکمران شاہ عبداللہ دوم فلسطین کے صدر محمود عباس سے ملاقات کے لیے مقبوضہ فلسطینی علاقے مغربی کنارے پہنچ گئے ،شاہ عبداللہ کا راملہ میں واقع فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈکوارٹرز کا پانچ برسوں کے بعد یہ پہلا دورہ ہے جسے تجزیہ کار خطے میں جاری حالیہ کشیدگی کے تناظر میں انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔

اردن کی حکومت اسرائیل کے زیرِقبضہ مشرقی یروشلم میں واقع مسجدِ اقصی اور مسلمانوں کے دیگر مقدس مقامات کی متولی ہے جس نے گزشتہ ماہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے مسجد کے داخلی دروازوں پر میٹل ڈیٹیکٹرز کی تنصیب پر سخت احتجاج کیا تھا۔فلسطینیوں کے پرتشدد احتجاجی مظاہروں اور اردن سمیت کئی مسلم ملکوں کے سخت ردِ عمل پر اسرائیل کو میٹل ڈیٹیکٹرز سمیت مسجدِ اقصی کے اطراف میں کیے جانے والے سکیورٹی کے نئے انتظامات دو ہفتوں کے اندر ہی واپس لینا پڑے تھے۔

(جاری ہے)

پیر کو شاہ عبداللہ دوم کا ہیلی کاپٹر راملہ میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر دفتر کے احاطے میں اترا جہاں صدر محمود عباس اور دیگر اعلی فلسطینی حکام نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔دونوں رہنماوں نے اس موقع پر صحافیوں سے بات چیت نہیں کی لیکن امید ہے کہ وہ اپنی ملاقات کے بعد پریس کانفرنس کریں گے۔صدر عبداللہ یہ دورہ ایسے وقت کر رہے ہیں جب گزشتہ ماہ اردن کے دارالحکومت عمان میں واقع اسرائیلی سفارت خانے میں ایک اسرائیلی اہلکار کی فائرنگ سے اردن کے دو شہریوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاہ عبداللہ کے اس دورے کا مقصد فلسطینی صدر محمود عباس کے لیے اردن کی حمایت کا اظہار کرنا ہے جنہیں اسرائیلی حکومت مسجدِ اقصی میں ہونے والے حالیہ واقعات پر ان کے ردِ عمل کے بعد سے تنہا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔حالیہ تنازع کے بعد فلسطینی صدر نے اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی امور پر تعاون معطل کردیا تھا جو تنازع طے پانے کے باوجود بھی تاحال معطل ہے۔

مغربی کنارے کے تمام سرحدی راستے اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں جس کے باعث حالیہ کشیدگی کے بعد سے 82 سالہ فلسطینی صدر مغربی کنارے سے باہر نکلنے سے قاصر ہیں۔فلسطینی تجزیہ کاروں کے مطابق ان حالات میں اردن کے شاہ عبداللہ کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس سے وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت صدر عباس کے ساتھ کھڑی ہے۔فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنی مستقبل کی ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں جس پر اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کرلیا تھا۔

اسرائیل اور اردن کے درمیان 1994 میں ہونے والے امن معاہدے کے تحت اسرائیل کی حکومت نے اردن کو مشرقی یروشلم میں واقع مسلمانوں کے مقاماتِ مقدسہ کا نگران اور متولی تسلیم کیا تھا جس کے بعد سے ان مقامات کا انتظام اردن کی حکومت کے زیرِ نگرانی چلنے والا اوقاف دیکھتا ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اردن کی 95 لاکھ آبادی میں سے لگ بھگ نصف تعدادفلسطینی نژاد ہے جس کے باعث اردن کی حکومت کا مسئلہ فلسطین سے گہرا تعلق ہے۔

متعلقہ عنوان :