Live Updates

انتخابی اصلاحات کے بعد بھی آئندہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے سوال اٹھا تو ہماری اجتماعی ناکامی ہوگی ،ْقومی اسمبلی میں اپوزیشن

ابھی مزید اصلاحات کی ضرورت ہے‘ بل میں موجود خامیوں اور کمزوریوں کو دور کیا جاسکتا ہے ،ْانتخابی اخراجات کی حد نہ بڑھائی جائے ،ْسید نوید قمر ہماری چار تجاویز منظور نہ ہوئیں تو بل کا کوئی فائدہ نہیں‘ آئینی ترامیم اور بل ساتھ پیش ہونا چاہیے تھا ،ْ تحریک انصاف آئین کی دفعہ 62,63 کو نہ چھیڑا جائے، ریٹرننگ افسر کی سطح پردھاندلی روکنے کا بھی انتظام ہونا چاہیے ،ْ جماعت اسلامی الیکشن کمیشن کسی کو زبردستی ووٹ دینے پر مجبور نہیں کر سکتا، متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات چاہتے ہیں ،ْنعیمہ کشور

جمعہ 18 اگست 2017 20:08

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اگست2017ء) قومی اسمبلی اپوزیشن نے انتخاباب بل 2017پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بعد بھی آئندہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے سوال اٹھا تو ہماری اجتماعی ناکامی ہوگی ،ْابھی مزید اصلاحات کی ضرورت ہے‘ بل میں موجود خامیوں اور کمزوریوں کو دور کیا جاسکتا ہے ،ْانتخابی اخراجات کی حد نہ بڑھائی جائے ۔

جمعہ کو قومی اسمبلی میں انتخابات بل2017ء جو انتخابات کے انعقاد سے متعلق قوانین میں ترمیم یکجا کرنے اور مربوط بنانے کا بل ہے‘ کے حوالے سے تحریک پر اظہار خیال کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے کہا کہ یہ ساری ایکسرسائز آج سے تین سال پہلے شروع ہوئی تھی‘ 2013ء کے انتخابات کے بعد کسی نے اسے دھاندلی کا الیکشن کہا کسی نے آر او کا الیکشن کہا‘ فیصلہ ہوا کہ پارلیمان انتخابات کے لئے اصلاحات کرے گی۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے اور حکومت نے ان اصلاحات کے حوالے سے بہت محنت کی ہے۔ اگر آئندہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے بھی سوال اٹھا تو یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہوگی۔ الیکشن میں وفاقی و صوبائی حکومتوں پرکم سے کم انحصار اور زیادہ سے زیادہ الیکشن کمیشن پر ہونا چاہیے۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سمیت کئی چیزیں آئندہ انتخابات میں ممکن نہیں ہو سکیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ابھی اور بھی بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے۔

بل میں جہاں کمزوریاں اور خامیاں ہیں ان کو دور کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ کمزوریاں ہمارے خلاف استعمال ہو سکتی ہیں۔ ہم ایک ایک ووٹ کے لئے دھکے کھاتے ہیں۔ اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر یہاں آتے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ہماری جماعت نے بہت محنت سے انتخابی اصلاحات کے لئے کام کیا ہے۔ آئینی ترامیم اور بل ساتھ پیش ہونا چاہیے‘ حکومت چاہتی تو دونوں چیزیں ساتھ کر سکتی تھی۔

زاہد حامد نے کمیٹی میں بہت تحمل کا مظاہرہ کیا ہے‘ ہم اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ الیکشن کمیشن اور نادرا سے ہمیں جو مطلوبہ تعاون ملنا چاہیے تھا وہ نہیں ملا۔ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملنا چاہیے۔ کمیٹی نے اتفاق رائے سے اس کا فیصلہ کیا تھا لیکن معلوم نہیں کیا وجوہات ہیں کہ اب پھر پائلٹ پراجیکٹ کی بات ہو رہی ہے۔ موجودہ الیکشن کمیشن کی بجائے آئندہ انتخابات کے لئے نیا الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے۔

نگران حکومت کے لئے کئی تجاویز بل میں آئی ہیں۔ نگران حکومت 50 فیصد اپوزیشن اور 50 فیصد حکومت کی تجاویز سے تشکیل ہونی چاہیے۔ الیکشن کے دن بائیو میٹرک ویری فیکیشن کا نظام ہو نا چاہیے۔ یہ تجویز معلوم نہیں بل کا حصہ کیوں نہیں بن سکی۔ ہماری چار تجاویز منظور ہونے تک بل کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایم کیو ایم کے ایس اے اقبال قادری نے کہا کہ ہم نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بہت سی تجاویز دی تھیں ان پر غور کرکے بل کا حصہ بنایا گیا ہے‘ کچھ چیزیں رہ گئی ہیں‘ کچھ ایسی تجاویز ہیں جن کا کوئی جواز نہیں ہے۔

سیاسی جماعتوں اور ارکان اسمبلی کے لئے انتخابی اخراجات کی حد نہ بڑھائی جائے اور اسے اتنا ہی رکھا جائے جتنا عام آدمی برداشت کر سکتا ہے۔جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ انتخابات میں پارٹیوں کی طرف سے اربوں روپے کے اخراجات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ جماعت اسلامی مڈل کلاس جماعت ہے‘ ہم پیسے کے زور پر انتخابات نہیں لڑ سکتے۔

الیکشن کمیشن کو اختیارات مل گئے لیکن اب ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ 70 لاکھ سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے۔ خواتین اگر مرضی سے ووٹ نہ ڈالیں تو انتخاب کو کالعدم نہیں کرنا چاہیے اس پر ہماری ترمیم کو قبول کیا جائے‘ ہم نادرا کی کارکردگی کو سراہتے ہیں۔ انتخابی فہرستوں پر تصاویر کے بعد دھاندلی کے امکانات نہیں ہیں لیکن ریٹرننگ افسر کی سطح پر اگر دھاندلی ہو تو اس کا بھی انتظام ہونا چاہیے۔

آئین کی دفعہ 62,63 کو اگر کوئی چھیڑے گا تو وہ آئین کے ساتھ اور ملک کے اسلامی تشخص کے ساتھ غداری کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر قانون اور ان کی ٹیم اور کمیٹی کے ارکان نے جو محنت کی ہے اس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔جے یو آئی (ف) کی رکن قومی اسمبلی نعیمہ کشور نے کہا کہ اس ایوان کی تمام سیاسی جماعتیں ملک میں شفاف انتخابات چاہتی ہیں۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی کو ہزاروں تجاویز موصول ہوئیں جن کا کمیٹی نے باریک بینی سے جائزہ لیا۔

کمیٹی کے ارکان کو مبارکباد دیتی ہوں۔ ہماری جماعت کی کچھ تجاویز مانی گئیں کچھ نہیں۔ ہم ملک میں متناسب نمائندگی چاہتے ہیں جس میں پارٹیوں کو ووٹ ملے اس سے جاگیرداری کا اثر و رسوخ ختم ہوگا۔ آئینی ترامیم کے بغیر بل کا فائدہ نہیں ،ْ کچھ تجاویز پر آئندہ الیکشن میں تجرباتی بنیادوں پر عمل کیا جائیگا کیونکہ ایک دم سے تمام تجاویز پر عمل نہیں ہو سکتا ،ْ پارٹی فنڈنگ پر قدغن ہونی چاہیے۔ حلقہ بندیوں پر نظرثانی کرنا ہوگی ،ْ الیکشن کمیشن زبردستی کسی کو ووٹ دینے پر مجبور نہیں کر سکتا ،ْانہوں نے کہا کہ صادق اور امین کی آئین میں تشریح کی ضرورت ہے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات