حکومت ادویات کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے ہرممکن اقدامات اٹھا رہی ہے‘ مہلک امراض کے خاتمے کے لئے اداروں کو تمام وسائل فراہم کریں گے

وزیر صحت و قومی خدمات قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران اظہار خیال

جمعرات 14 ستمبر 2017 13:07

حکومت ادویات کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے ہرممکن اقدامات اٹھا رہی ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 ستمبر2017ء) وزیر صحت و قومی خدمات نے کہا ہے کہ حکومت ادویات کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے‘ مہلک امراض کے خاتمے کے لئے ہم اپنے اداروں کو تمام وسائل فراہم کریں گے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران شیخ صلاح الدین کے سوال کے جواب میں وزیرقومی صحت‘ خدمات سائرہ افضل تارڑ نے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ادویات کی تیاری کے دوران معیار کو یقینی رکھنا‘ رجسٹریشن کے لئے ضروری پیرا میٹرز ہیں جیسا کہ تحفظ ‘ افادیت وغیرہ پر غور و خوض کے ذریعے یہ پیرا میٹرز بنائے جاتے ہیں لہذا پاکستان کی عوام محفوظ ہے‘ اگر وہ مقتدرہ بورڈ یعنی رجسٹریشن بورڈ سے باضابطہ منظور کردہ رجسٹرڈ ادویات استعمال کرتی ہیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید بتایا کہ سنٹرل ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت کام کرتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے پری کوالیفکیشن کے عمل میں ہے۔ کیو ایم ایس کا I اور II درجہ حاصل کرلیا گیا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے افادیت کا ٹیسٹ لیا جاچکا ہے اور پری آڈٹ میں تجویز کردہ تبدیلیوں کی سرگرمیاں جاری ہیں جس سے پاکستان میں ادویات کا اعلیٰ معیار یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔

فارما سوٹیکل برآمد کو بھی اس سے تقویت ملے گی۔ اس سال کے آخر یا زیادہ سے زیادہ اگلے سال کی پہلی سہ ماہی تک ڈبلیو ایچ او کا آڈٹ ہونا متوقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے تحفظ کے لئے پاکستان میں غیر رجسٹرڈ ادویات کی روک تھام کے لئے اقدامات جاری ہیں۔ انسپکٹرز وقتاً فوقتاً مختلف ادویہ ساز کمپنیوں پر چھاپے مارتے ہیں اور انسپکشن کی جاتی ہے۔

عائشہ سید کے ضمنی سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہیلتھ کیئر کمیشن کے قیام کے لئے آئندہ اجلاس میں بل پیش کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ 2015ء سے 2017ء کے عرصہ کے دوران ملک میں ڈرگ ایکٹ 2012ء اور ڈرگ ایکٹ 1976ء کی خلاف ورزی پر عدالتوں میں 8229 مقدمات چلائے گئے جن میں صنعتکار ‘ پرچون فروش اور تھوک فروش بھی شامل ہیں۔ 4835 مقدمات کا فیصلہ ہوچکا ہے اور اس سلسلے میں 198 ملین روپے کے جرمانے بھی عائد کئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او اس سلسلے میں سب سے اہم ادارہ ہے جو ہمیں 27 شعبوں میں اعانت پیش کرتا ہے۔ یہ ادارہ ہماری مالی مدد نہیں کرتا بلکہ ہمیں صرف تکنیکی مدد فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح یونیسف کی طرف سے بھی ہمیں مدد ملتی ہے تاہم مہلک امراض کی روک تھام اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے اداروں کو وسائل فراہم کریں گے۔

متعلقہ عنوان :