انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی منظوری کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی

موجودہ قانون سازی کو آئین کے بنیادی اسٹرکچر سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جائے ،ْ درخواست گزار

منگل 3 اکتوبر 2017 20:02

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 اکتوبر2017ء) انتخابی اصلاحات ایکٹ 2017 کی منظوری کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی گئی۔درخواست قانون دان ذوالفقار بھٹہ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت دائر کی گئی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ پارلیمنٹ کا منظور کردہ بل آئین کی روح سے متصادم ہے کیونکہ اس کے تحت عدالت کی جانب سے نااہل قرار دیا گیا شخص پارٹی صدارت کیلئے اہل قرار پائے گا۔

درخواست میں کہا گیا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت پارٹی صدر کسی بھی رکن پارلیمنٹ کی اہم امور پر قانون سازی کو کنٹرول کرتا ہے اور اگر اہم امور پر کوئی رکن پارلیمنٹ پارٹی صدر کی مرضی کے خلاف ووٹ دے تو اس کا کیس الیکشن کمیشن کو نااہلی کیلئے بھجوایا جاتا ہے۔درخواست گزار نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 3 استحصال سے روکتا ہے تاہم اس قانون میں ترمیم کے تحت نااہل شخص اہل شخص کو اس کی مرضی کے خلاف ووٹ دینے سے منع کرسکتا ہے۔

(جاری ہے)

درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ موجودہ قانون سازی کو آئین کے بنیادی اسٹرکچر سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جائے۔واضح رہے کہ عدالت کی جانب سے نواز شریف کو نااہل قرار دیئے جانے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مسلم لیگ (ن) کو پارٹی کا نیا صدر منتخب کرکے کمیشن کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو نیا پارٹی صدر منتخب کرنے کیلئے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت نااہل شخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔

نواز شریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی کے بعد حکمراں جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما سینیٹر سردار یعقوب کو پارٹی کا قائم مقام صدر منتخب کیا گیا تھا۔حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف کو دوبارہ پارٹی کا صدر منتخب کرنے کے سلسلے میں ایک رکاوٹ کا سامنا تھا جس کیلئے انتخابی اصلاحاتی بل 2017 قومی اسمبلی میں پیش کیا گیاجس کے تحت نااہل شخص بھی پارٹی کا صدر منتخب ہوسکتا ہے۔

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اس بل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر اعتزاز احسن نے ترمیم پیش کی کہ جو شخص اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا جس کے بعد بل پر ووٹنگ ہوئی۔حکومت نے محض ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن بل کی شق 203 میں ترمیم مسترد کرانے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار کردی۔

مذکورہ بل کی منظوری کے بعد آرٹیکل 62 اور 63 کی وجہ سے نااہل ہونے والا شخص بھی سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کا اہل ہوگا۔دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ صدر منتخب کرنے لیے پارٹی آئین میں بھی ترمیم کردی گئی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل نے پارٹی آئین میں ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے دفعہ 120 کو ختم کردیا، جس کے بعد سابق وزیراعظم نواز شریف ایک بار پھر پاکستان مسلم لیگ کے بلامقابلہ صدر منتخب ہوگئے۔

متعلقہ عنوان :