Live Updates

(ن)لیگ پارلیمنٹ کی سیاست کرے، اداروں سے تصادم نہ کر ے ،نواز شریف اور مریم نواز اگر خاموش ہو گئے تو انکی سیاست ختم ہو جائے گی، اگر جیل جا کر مزاحمت کرتے ہیں تو انکی سیاست چلتی رہے گی،ہم سب کو درد اور دکھ بھول کر پاکستان کیلئے کوشش کرنی چاہیے، ملک کیلئے سیاسی و عسکری قیادت، بیورو کریٹ اور ٹیکنو کریٹ سب کو مل کر بیٹھنا ہو گا، س ملک کا حل ٹیکنو کریٹ نہیں جمہوریت ہے، ٹیکنوکریٹ حکومت سے متعلق شورعمران خان نے مچایا کہتے ہیں کہ تھوڑے دن ہیں ٹیکنوکریٹ حکومت آجائے، مگر آئین میں پورے 5سال ہیں، عمران خان کو جو بات کان میں بتائی جائے اسکا بڑی جلدی تاثر لیتے ہیں ،حکومت کی مدت چار سال کی جائے،سیاستدانوں اور عسکری لیڈروں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، نوازشریف کو گالم گلوچ نے خراب کیا، آج بھی کہتا ہوں کہ سب باتیں بھول کرپارلیمنٹ کا کمیشن بنائو،میاں صاحب نے پارلیمنٹ کی بجائے عدلیہ سے احتساب کرایا،لوگ عدالت سے بچ سکتے ہیں مگر پارلیمانی کمیشن سے نہیں ،انہیںاپنے لوگوں نے ہی سپریم کورٹ کے جال میں پھنسایا، ،مارچ سے پہلے کوئی مارچ ہوتا نہیں دیکھ رہا، مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، ماوراء آئین تو کوئی کام سپریم کورٹ بھی نہیں کر سکتی،شیڈول کے مطابق اگست 2018میں انتخابات ہو سکتے ہیں،بھارت ہر وقت پاکستان کو ہٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، نواز شریف نے ہاتھ پکڑ کر زرداری صاحب کو منع کیا کہ آپ کو ہمارے گھر نہیں آنا،چوہدری نثارکے پاس اگر فورم ہے تو پارٹی کے اندر رہ کر بات کریں،اتنے جر ات مند ہیں تو پارٹی چھوڑ کر چلے جائیں، وہ اپنی پارٹی پر تنقید کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو

منگل 31 اکتوبر 2017 22:58

(ن)لیگ پارلیمنٹ کی سیاست کرے، اداروں سے تصادم نہ کر ے ،نواز شریف اور ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 31 اکتوبر2017ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما سید خورشید شاہ نے کہا کہ (ن)لیگ پارلیمنٹ کی سیاست کرے، اداروں سے ٹکرائو نہ کر ے ،نواز شریف اور مریم نواز اگر خاموش ہو گئے تو انکی سیاست ختم ہو جائے گی،ہم سب کو درد اور دکھ بھول کر پاکستان کیلئے کوشش کرنی چاہیے، ملک کیلئے سیاسی و عسکری قیادت، بیورو کریٹ اور ٹیکنو کریٹ سب کو مل کر بیٹھنا ہو گا،نوازشریف اگر جیل جا کر مزاحمت کرتے ہیں تو انکی سیاست چلتی رہے گی، اس ملک کا حل ٹیکنو کریٹ نہیں جمہوریت ہے، ٹیکنوکریٹ سے متعلق شورعمران خان نے مچایا کہتے ہیں کہ تھوڑے دن ہیں ٹیکنوکریٹ حکومت آجائے، مگر آئین میں پورے 5سال ہیں، عمران خان کو جو بات کان میں بتائی جائے اسکا بڑی جلدی تاثر لیتے ہیں ،حکومت کی مدت چار سال کی جائے،سیاستدانوں اور عسکری لیڈروں کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، میاں صاحب کو گالم گلوچ نے خراب کیا، آج بھی کہتا ہوں کہ سب باتیں بھول کرپارلیمنٹ کا کمیشن بنائو،میاں صاحب نے پارلیمنٹ کی بجائے عدلیہ سے احتساب کرایا،لوگ عدالت سے بچ سکتے ہیں مگر پارلیمنٹری کمیشن سے نہیں ،انہیںاپنے لوگوں نے ہی سپریم کورٹ کے جال میں پھنسایا، ان حالات میں نئی پارٹی کس طرح حکومت چلانے کی ذمہ داری لے گی،مارچ سے پہلے کوئی مارچ ہوتا نہیں دیکھ رہا، مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، ماوراء آئین تو کوئی کام سپریم کورٹ بھی نہیں کر سکتی،شیڈول کے مطابق اگست 2018میں انتخابات ہو سکتے ہیں،بھارت ہر وقت پاکستان کو ہٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، میاں نواز شریف نے ہاتھ پکڑ کر زرداری صاحب کو منع کیا کہ آپ کو ہمارے گھر نہیں آنا، یہ پاکستان کے دیسی کلچر میں نہیں ہے، اس زخم کو بھرنے میں ٹائم لگتا ہے، جب انسان برے وقت میں مدد مانگتا ہے تو اسے مدد نہیں ملتی،چوہدری نثارکے پاس اگر فورم ہے تو پارٹی کے اندر رہ کر بات کریں،اتنے باعزت ہیں تو پارٹی چھوڑ کر چلے جائیں، وہ اپنی پارٹی پر تنقید کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں،وہ پنجاب ہائوس استعمال کر کے حکومت کو ہی تنقید کرتے رہے۔

(جاری ہے)

منگل کو نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو دیتے ہوئے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کا حق ہے کہ وہ بیٹھ کر آپس میں مشاورت کریں، مسلم لیگ (ن)کو پارلیمنٹ کی سیاست کرنی چاہیے، اداروں سے ٹکرائو نہ کریں،گالم گلوچ کی سیاست سے پرہیز کریں،پاکستان کی بقاء اور معیشت کی بہتری جمہوریت میں ہی ہے، اگر اب این آر او ہوا تو ایسا ہی ہو گا جیسا وہ این آر او کر کے دس سال پہلے باہر گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اگر خاموش ہو گئے تو ان کی سیاست ختم ہو جائے گی، اگر میاں صاحب جیل جا کر مزاحت کرتے ہیں تو ان کی سیاست چلتی رہے گی، جو میاں صاحب کو مشورہ دے رہے ہیں کہ خاموش رہیں اور مقدمات کا سامنا کریں اگر جیل جانا پڑتا ہے تو جائیں وہ میاں صاحب کے دوست نہیں ہیں۔ خورشید شاہ نے کہا کہ میاں صاحب کو اپنی سیاست زندہ رکھنی ہے، جس بلندی تک میاں صاحب گئے ہیں اس کے بعد خاموش رہنے کا کیا فائدہ ،پھر سیاست کیا کی، ذوالفقار علی بھٹو نے جیل میں اور جیل سے باہر دونوں جگہ سیاست کی ہے، اس ملک کا حل ٹیکنو کریٹ نہیں جمہوریت ہے،ٹیکنوکریٹ کے تجربے 40سال کئے جا چکے ہیں،جب پہلے ہماری حکومت آئی تھی تو ہمیں ٹیکنو کریٹ دیئے تھے کہ ان کو ساتھ رکھو یہ ہمیں جہیز میں دیئے گئے تھے، معین قریشی اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو ٹیکنوکریٹ کے طور پر لایا گیا مگر انہوں نے کیا کیا ،اس طرح ضیاء الحق، مشرف اور ایوب خان کے دور میں ٹیکنوکریٹ لائے گئے مگر انہوں نے کیا کیا اگر کوئی ٹیکنوکریٹ لا رہا ہے تو اسے دیکھنا چاہیے کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں ہے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ ٹیکنوکریٹ سے متعلق شورعمران خان نے مچایا ہوا ہے وہ کہتے ہیں کہ تھوڑے دن ہیں ٹیکنوکریٹ حکومت آجائے، مگر آئین میں تھوڑے دن نہیں ہیں، اس میں تو پورے 5سال ہیں، عمران خان کہتے ہیں کہ امپائر ہے جو انگلی اٹھائے گا، عمران اپنی اہمیت بڑھانے کیلئے اشارہ دے رہا ہے کہ ہمارے ساتھ بہت بڑی طاقت اور اس کا فائدہ اس نے لیا ہے ،لوگ اس کے پیچھے گئے ہیں، یہ بغیر خوف کہ ایسی باتیں کر رہے ہیں، سب کو گالیاں دے رہے ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ان کے پیچھے کوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اچھے خاصے لوگ عمران خان کے پیچھے گئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی اب دوبارہ نہیں آئے گی مگر پیپلز پارٹی کے اندر جتنی عزت ورکر، ایم پی اے اور ایم این اے کو ملتی ہے اتنی عزت کسی دوسری جماعت میں نہیں ملتی،چوہدری نثار کی اپنی پارٹی پر تنقید کے بارے میں بات کرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے کہا کہ اگر آپ کے پاس فورم ہے تو پارٹی کے اندر رہ کر بات کریں،چوہدری نثارپارٹی سے باہر میڈیا میں گفتگو کرتے ہوئے اپنی پارٹی پر تنقید کرکے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں،وہ سینئر وزیر رہے اور حکومت کا ہی فورم پنجاب ہائوس استعمال کر کے حکومت کو ہی تنقید کرتے رہتے ہیں، اتنے باعزت اور غیرت والے ہیں تو پارٹی چھوڑ کر چلے جائیں، ایسے سیاست نہیں ہوتی۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں کونسی ایمرجنسی لگ گئی ہے ،پارلیمنٹ چل رہی ہے اور عدلیہ بھی کام کر رہی ہے تو مارچ کیوں ہو گا، تمام ادارے کام کر رہے ہیں، مارچ سے پہلے کوئی مارچ ہوتا نہیں دیکھ رہا، مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں نہ کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے، ماوراء آئین تو کوئی کام سپریم کورٹ بھی نہیں کر سکتی۔ خورشید شاہ نے کہا کہ شیڈول کے مطابق اگست 2018میں انتخابات ہو سکتے ہیں۔

قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا کہ عمران خان اس بات کا بڑی جلدی تاثر لیتے ہیں جو ان کے کان میں بتائی جائے،یہ سب کی کوشش ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں، میں واحد سیاستدان ہوں جو کہتا رہا کہ حکومت کی معیاد چار سال کی جائے، اس وقت ملک میں کوئیک مارچ کا موسم نہیں ہے، کوئی ایمر جنسی نہیں لگی کہ کوئیک مارچ ہونا چاہیے، سیاست کا نام ہی سچائی ہے کچھ لوگوں نے اسے بدنام کیا ہوا ہے،سیاستدان اور عسکری لیڈر کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، عدلیہ، فوج اور پارلیمنٹ کو اپنا اپنا کام کرنا چاہیے، اس ملک کو مل کر چلانا ہے، میاں صاحب کو گالم گلوچ نے خراب کیا، میں آج بھی کہتا ہوں کہ سب باتیں بھول جائو اور پارلیمنٹ کا کمیشن بنائو،میاں صاحب نے پارلیمنٹ کی بجائے عدلیہ سے احتساب کرایا یہ اپنی داڑھی دوسرے کے ہاتھ میں دینے کے مترادف ہے، لوگ عدالت سے بچ سکتے ہیں مگر پارلیمنٹری کمیشن سے کوئی نہیں چھوٹ سکتا، میاں صاحب کے اپنے لوگوں نے ان کو سپریم کورٹ کے جال میں پھنسادیا، چوہدری نثار نے اگر واقعتاً میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نہ جانے کا مشورہ دیا تھا تو انہوں نے اس وقت میڈیا یا اپوزیشن کے سامنے یہ بات کیوں نہ کی، عمران خان کو جیلوں سے ڈر لگے تو بات سمجھ میں آتی ہے وہ خود کہتے ہیں کہ میں اگر ایک دن بھی جیل میں رہوں تو مر جائوں، ہماری انوسٹمنٹ اس وقت کم ہو چکی ہے، نوکریاں نہیں ہیں، ایکسپورٹ کم ہو گئی ہے، ان حالات میں نئی پارٹی کس طرح حکومت چلانے کی ذمہ داری لے گی۔

خورشید شاہ نے کہا کہ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کیسے بنا، پانچ ہزار مربع میل زمین کب گئی، کارگل کا مسئلہ کب ہوا، یہ سب کچھ سویلین کے دور میں تو نہیں ہوا، پاکستان سب کا ہے ہم سب کو مل کر سوچنا چاہیے،ہندوستان ہر وقت پاکستان کو ہٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، میاں نواز شریف نے ہاتھ پکڑ کر زرداری صاحب کو منع کیا کہ آپ کو ہمارے گھر نہیں آنا، یہ پاکستان کے دیسی کلچر میں نہیں ہے، اس زخم کو بھرنے میں ٹائم لگتا ہے، جب انسان برے وقت میں مدد مانگتا ہے تو اسے مدد نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو درد اور دکھ بھول کر پاکستان کیلئے کوشش کرنی چاہیے، ملک کیلئے سیاسی و عسکری قیادت، بیورو کریٹ اور ٹیکنو کریٹ سب کو مل کر بیٹھنا ہو گا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات