ترسیلی نقصانات اور بجلی چوری سے سالانہ 214 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے، توانائی کے شعبے میںگردشی قرضے ایک مرتبہ پھر ساڑھے 4 سو ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں

پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری توانائی یوسف نسیم کا انکشاف ساہیوال کول پاور پراجیکٹ فضائی آلودگی پھیلانے کے باعث آدھے پنجاب کو ٹی بی کا مریض بنا دے گا اور کوئلے کے دھوئیں سے لوگ مریں گے تو قتل کا مقدمہ تو بنے گا، اس منصوبے کو بند کیاجائے، یہ پراجیکٹ حکومت کے خلاف دفعہ 302 کا کیس ہے ، چیئرمین کمیٹی خورشید شاہ کے ریمارکس صارفین کو اوربلنگ کی جارہی ہے اور 90 فیصد بل بغیر ریڈنگ کے بھیجے جاررہے ہیں ، صارفین کو ایوریج فارمولہ لگا کر بل بھیج دیا جاتا ہے، نوید قمر واپڈا قومی اداروں پر ایک داغ ہے اور کرپشن کی دلدل میں پھنس چکاہے، ا عظم سواتی

بدھ 1 نومبر 2017 19:20

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 01 نومبر2017ء) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں سیکریٹری توانائی یوسف نسیم نے انکشاف کیا کہ کہ ترسیلی نقصانات اور بجلی چوری سے سالانہ 214 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے، توانائی کے شعبے میںگردشی قرضے ایک مرتبہ پھر ساڑھے 4 سو ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں۔چیئرمین خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ساہیوال پراجیکٹ آدھے پنجاب کو ٹی بی کا مریض بنا دے گا اور کوئلے کے دھوئیں سے لوگ مریں گے تو قتل کا مقدمہ تو بنے گا، ۔

خورشید شاہ نے فضائی آلودگی پھیلانے کے باعث ساہیوال کوئلہ پراجیکٹ کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ پراجیکٹ حکومت کے خلاف دفعہ 302 کا کیس ہے جو آدھے پنجاب کو ٹی بی کا مریض بنا دے گا اور اگر لوگ دھوئیں سے مریں گے تو قتل کا مقدمہ تو بنے گا،کمیٹی کے رکن نوید قمر نے کہا کہ صارفین کو اوربلنگ کی جارہی ہے اور 90 فیصد بل بغیر ریڈنگ کے بھیجے جاررہے ہیں جبکہ صارفین کو ایوریج فارمولہ لگا کر بل بھیج دیا جاتا ہے، رکن کمیٹی عظم سواتی نے کہاکہ واپڈا قومی اداروں پر ایک داغ ہے اور کرپشن کی دلدل میں پھنس چکاہے ۔

(جاری ہے)

بدھ کو پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں وزارت توانائی کی بجلی کی پیداوار اور ترسیل کے حوالے سے واپڈا حکام اور وزارت نے بریفنگ دی ۔واپڈا نے پی اے سی کو آگاہ کیا کہ 10ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے گھریلو صارفین 2کروڑ سے زائد ایکٹیو اور17لاکھ سے زائد منقطع ہیں، صنعتی صارفین 2لاکھ سے زائد ہیں، سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ رنگین دستاویزات میں ڈائیگرام نظر آتے ہیں اور بلیک اینڈ وائٹ دستاویز فراہم کی گئیں، کمیٹی نے بھی اس پر کہا کہ کلرڈ دستاویز میں گراف صحیح نظر آتا ہے اتنا فرق نہیں پڑتا۔

چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا کہ 480ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کرنے کے بعد کہا گیا تھا کہ اب لوڈشیڈنگ نہیں ہو گی، آج کے گردشی قرضے کے حوالے سے بتایا جائے، جب تیل کی قیمتیں زیادہ تھیں اور بجلی کی فی یونٹ قیمت 9روپے تھی اور آج تیل کی قیمتیں کم ہیں مگر بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 50فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے، جتنے ڈسکوز ہمیں ان کی ناکامی ہے کہ 40فیصد سٹاف کم ہے، لائن مین نہیں ہے اور جو لائن مین ہیں ان کی کمائی میں اضافہ ہو جاتا ہے، جب کسی کو زیادہ بل بھیجا جاتا ہے تو وہ بل کیسے ادا کرے گا، پانچ سال بعد پی ٹی سی ایل کی طرح کہیں گے کہ بجلی لو مگر لوگ نہیں لیں گے کھربوں روپے خرچ کئے جا ئیں گے،10سال کے بعد کوئی بجلی نہیں لے گا، ساہیوال میں کوئلے کا بجلی گھر بنایا گیا اور آج پنجاب میں سموگ ہے اور پنجاب کی اکثریتی آبادی اس سے دمہ اور ٹی بی کے مریض بن جائیں گے، یہ جرم کیا گیا ہے اور اس کے دفعہ 302کے کیسز درج ہوں گے، ساہیوال کے قریب و جوار کے علاقے کے لوگ مریض بن جائیں گے اور یہ بات سب ذہن نشین کرلیں کہ یہ سب ہونا ہے۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ کمیٹی کوئلے کے بجلی گھروں کو بند کرنے کی سفارش کرے۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ ساہیوال سب سے سرسبز علاقہ ہے، جس نے اپنے 45فیصد کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بند کر دیئے ہیں اور وہی مشینری ہمیں دے رہا ہے، ہمارے پاس متبادل ذرائع ہیں، جس پر راجہ جاوید اخلاص نے کہا کہ ہماری حکومت بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کر رہی ہے، ایسے مسئلے کو نہ اٹھایا جائے، ہمیں لوڈشیڈنگ ختم کرنے دی جائے، جس پر خورشید شاہ نے کہا کہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوں تو لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا کیا فائدہ ۔

کمیٹی رکن نوید قمر نے کہا کہ صرف پنجاب میں لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی ہے باقی سب علاقوں میں ہورہی ہے۔سیکرٹری توانائی یوسف نسیم کھوکھر نے کمیٹی کو بتایا کہ تیل پر چلنے والے انرجی پلانٹس کو گیس میں تبدیل کررہے ہیں، دو چار سال کے بعد ہم پھر لوڈشیڈنگ کے فیز میں داخل ہو سکتے ہیں، ہزارہ کو پیپکو سے علیحدہ کر کے الگ ڈسکوز بنانے پر کام ہورہا ہے۔

کمیٹی نے کہا کہ نقصانات 200ارب سے زیادہ ہیں، واپڈا چوری کے باوجود کما رہی ہے اور گردشی قرضہ میں اضافہ یہیں سے ہو رہا ہے۔ واپڈا حکام نے کہا کہ 16.3فیصد انتظامی اور ٹیکنیکل نقصان ہوا،1.6فیصد چوری کی وجہ سے نقصان ہوا ہے۔ کمیٹی نے کہا کہ اس سے ثابت ہوا کہ انتظامی نقصان زیادہ ہے اور چوری کا نقصان کم ہے، ٹرانسمیشن لائنوں کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے، گردشی قرضہ 450ارب تک پہنچ گیا ہے، ہمیں یقین دلایا گیا تھا کہ اب گردشی قرضہ نہیں بڑھے گا، ٹرانسمیشن لائنوں اور دیگر مشینری کو ٹھیک کیا جائے تو یہ نقصان کم ہو جائے گا، گردشی قرضہ سے دیگر شعبوں میں خرچ کیا جاتا، یہ بھی وزارت شکر کرے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہو چکی ہے۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ٹرانسفارمر اور کھمبا دوگنا قیمت پر فروخت کیا جاتا ہے،واپڈا خود کفیل بن چکا ہے، مارکیٹ میں ریٹس کم ہیں، واپڈا اور پی آئی اے کے ادارے آج تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں۔ اعظم سواتی نے کہا کہ سالانہ 200اربروپے نقصان ہو رہا ہے، مگر اس پر بزنس پلان بنایا جائے۔ کمیٹی نے کہا کہ ملک میں ڈھول بج رہا ہے کہ واپڈا میں چوری ہو رہی ہے، اگلے اجلاس میں بل پلان لایا جائے۔

کمیٹی نے کہا کہ حکومت گردشی قرضے کو کابینہ اجلاس میں لے جائے اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ گردشی قرضے کو حل کریں، ساہیوال کوئلہ منصوبہ معاملے پر کمیٹی نے کہا کہ چین اتنا ترقی یافتہ ملک ہے کہ اس نے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر بند کر دیئے گئے ہیں کیا ان کے پاس کوئلے سے پھیلنے والی آلودگی کو قابو پانے کیلئے کوئی انتظام نہیں ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ بجلی کے صارفین کی کل تعداد 2 کروڑ 55 لاکھ ہے، گھریلو بجلی صارفین کی تعداد 2 کروڑ 19 لاکھ ہے جو 50 فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں جبکہ 29 لاکھ 49 ہزار کمرشل صارفین 7.5 فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں، دوسری جانب تین لاکھ 36 ہزار صنعتی صارفین 24.6 فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں اور دو لاکھ 52 ہزار ٹیوب ویل کنیکشنز پر 11.11 فیصد بجلی استعمال ہو رہی ہے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ بجلی کے ترسیلی نقصانات اس وقت 17.9 فیصد ہیں، ایک فیصد ترسیلی نقصان سے مالی طور پر 12 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے اس طرح مجموعی طور پر سالانہ 214 ارب روپے کے ترسیلی نقصانات ہو رہا ہے۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ لیسکو کے ایکٹیو گھریلو صارفین 32 لاکھ 3 ہزار ہیں جو 45.89 فیصد بجلی استعمال کرتے ہیں، صنعتی صارفین 58 ہزار 977 ہیں جبکہ لیسکو میں ترسیلی نقصانات 11.8 فیصد ہیں۔

کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ لیسکو میں ٹرانسمیشن نقصانات 2.1 فیصد ڈسٹریبیوشن نقصانات 9.66 فیصد ہیں، گیپکو میں ٹرانسمیشن نقصانات 2.06 فیصد اور ڈسٹریبیوشن نقصانات 8.52 فیصد ہیں، فیسکو میں ٹرانسمیشن نقصانات 2.55 فیصد اور ڈسٹریبیوشن نقصانات 8.39 فیصد ہیں، آئیسکو میں ٹرانسمیشن نقصانات 1.71 فیصد اور ڈسٹریبیوشن نقصانات 6.94 فیصد ہیں، میپکو میں ٹرانسمیشن نقصانات 3.5 فیصد اور ڈسٹریبیوشن نقصانات 11.3 فیصد ہیں، پیسکو کے ٹرانسمیشن نقصانات 3.64 فیصد اور ڈسٹریبیوشن نقصانات 17.31 فیصد ہیں مجموعی نقصانات 21 فیصد ہیں۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ حیسکو کے مجموعی ترسیلی نقصانات 18.46 فیصد ہیں، سیپکو کے مجموعی ترسیلی نقصانات 19.33 فیصد ہیں اور کیسکو کے مجموعی نقصانات 21.3 فیصد ہیں۔چیئرمین خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ساہیوال پراجیکٹ آدھے پنجاب کو ٹی بی کا مریض بنا دے گا اور کوئلے کے دھوئیں سے لوگ مریں گے تو قتل کا مقدمہ تو بنے گا، ۔خورشید شاہ نے فضائی آلودگی پھیلانے کے باعث ساہیوال کوئلہ پراجیکٹ کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ پراجیکٹ حکومت کے خلاف دفعہ 302 کا کیس ہے جو آدھے پنجاب کو ٹی بی کا مریض بنا دے گا اور اگر لوگ دھوئیں سے مریں گے تو قتل کا مقدمہ تو بنے گا۔

کمیٹی کے رکن نوید قمر نے کہا کہ صارفین کو اوربلنگ کی جارہی ہے اور 90 فیصد بل بغیر ریڈنگ کے بھیجے جاررہے ہیں جبکہ صارفین کو ایوریج فارمولہ لگا کر بل بھیج دیا جاتا ہے۔ کمیٹی کے رکن شفقت محمود کا کہنا تھا کہ بل آخری تاریخ سے ایک روز قبل گھروں میں پھینکا جاتا ہے اور مجھے بھی اکثر ایک دن قبل بل موصول ہوتا ہے۔اجلاس میں سیکرٹری وزارت توانائی یوسف نسیم کھوکھر نے صارفین کو درپیش مشکلات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ سب اچھا نہیں چل رہا، بجلی کی اووربلنگ ہورہی ہے اور بل تاخیر سے بھیجے جاتے ہیں، صارفین کی شکایات کے ازالے کا مئوثرنظام تین ماہ میں فعال ہوجائے گا۔

چیئرمین خورشید شاہ نے کہا کہ جس دن بجلی کی درست قیمت وصول کی گئی بجلی کی چوری ختم ہو جائے گی، واپڈا یہ بات سوچے کہ بجلی کی چوری کیوں ہو رہی ہے، اگر ایک روپے کی جگہ پانچ روپے قیمت وصول کریں گے تو چوریاں تو ہوں گی، دیہاتوں میں بجلی چوری کی وجہ ہی اوور بلنگ ہے، پانچ سال بعد پی ٹی سی ایل کی طرح آپ بھی گھر گھر جا کر عوام کی منت کریں گے کہ بجلی لے لو لیکن لوگ بجلی نہیں لیں گے بلکہ سولر پر آجائیں گے۔اجلاس ہوا جس میں بجلی کے شعبے میں مجموعی نقصانات اور چوری کا جائزہ لیا گیا۔