نواز شریف کو کسی این آر او کی ضرورت نہیں،میاں صاحب کے ساتھ ڈیل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، مریم نواز

ابھی بھی آپشنز سارے نواز شریف کے پاس ہیں، جے آئی ٹی میں قوم کے سامنے سرکس لگائی گئی،ہم نے سپریم کورٹ اورجے آئی ٹی میں تمام ثبوت دیئے،اگروالیم 10میں کچھ ہوتاتواقامہ پرفیصلہ نہ آتا،مجھے پارٹی میں کسی انکل سے کوئی پرابلم نہیں ہے ،(ن)لیگ جمہوری پارٹی ہے مجھے بھی رائے دینے کاحق ہے،ہمارے خلاف احتساب کا عمل اس وقت شروع ہوا جب میں نے (ن) لیگ کے میڈیا سیل کی ذمہ داری سنبھالی، ڈان لیکس کے ذریعے ہمیں ڈرانے کی کوشش کی گئی جبکہ ڈان لیکس کا ایک کردار اپنے انجام تک پہنچ چکا ہے اور دیگر کا حساب بھی جلد ہی ہوگا، شریف خاندان کا جس طرح احتساب کیا جا رہا ہے ، اس سے ہمیں انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے،میں نے پارٹی میں سینیارٹی لائن کبھی عبورنہیں کی،پارٹی پالیسی پربیان دینے کا اختیار پارٹی قیادت کو ہے،زرداری صاحب نواز شریف کو گرانے کے لیے استعمال ہورہے ہیں، ان کو سمجھنا چاہیے کہ نواز شریف تو پھر بھی قابل قبول ہیں زرداری صاحب تو کسی کو قبول نہیں، جب نواز شریف سے فراغت ہو جائے گی تو باقیوں کے ساتھ کیا حال ہوگا ،اربوں کے اثاثے ڈکلیئرکرنیوالے کیلئی10ہزاردرہم ڈکلیئرکرنامشکل تھا ،مجھ سے متعلق مقدمے کی نوعیت مضحکہ خیزنہیں تواورکیاہے،میاں صاحب کی پیشی سے متعلق بیان میری ذاتی رائے تھی ،پارٹی پالیسی پر بیان نہ دینے کا فیصلہ مجھ تک نہیں پہنچا،سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی صاحبزادی کا نجی ٹی وی کو انٹرویو

جمعرات 2 نومبر 2017 00:20

نواز شریف کو کسی این آر او کی ضرورت نہیں،میاں صاحب کے ساتھ ڈیل کرنا ..
�سلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 02 نومبر2017ء) سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہنواز شریف کو کسی این آر او کی ضرورت نہیں،میاں صاحب کے ساتھ ڈیل کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، ابھی بھی آپشنز سارے نواز شریف کے پاس ہیں، جے آئی ٹی میں قوم کے سامنے سرکس لگائی گئی،ہم نے سپریم کورٹ اورجے آئی ٹی میں تمام ثبوت دیئے،اگروالیم 10میں کچھ ہوتاتواقامہ پرفیصلہ نہ آتا،مجھے پارٹی میں کسی انکل سے کوئی پرابلم نہیں ہے ،(ن)لیگ جمہوری پارٹی ہے مجھے بھی رائے دینے کاحق ہے،ہمارے خلاف احتساب کا عمل اس وقت شروع ہوا جب میں نے (ن) لیگ کے میڈیا سیل کی ذمہ داری سنبھالی، ڈان لیکس کے ذریعے ہمیں ڈرانے کی کوشش کی گئی جبکہ ڈان لیکس کا ایک کردار اپنے انجام تک پہنچ چکا ہے اور دیگر کا حساب بھی جلد ہی ہوگا، شریف خاندان کا جس طرح احتساب کیا جا رہا ہے ، اس سے ہمیں انصاف کی کوئی توقع نہیں ہے،میں نے پارٹی میں سینیارٹی لائن کبھی عبورنہیں کی،پارٹی پالیسی پربیان دینے کا اختیار پارٹی قیادت کو ہے،زرداری صاحب نواز شریف کو گرانے کے لیے استعمال ہورہے ہیں، ان کو سمجھنا چاہیے کہ نواز شریف تو پھر بھی قابل قبول ہیں زرداری صاحب تو کسی کو قبول نہیں، جب نواز شریف سے فراغت ہو جائے گی تو باقیوں کے ساتھ کیا حال ہوگا ،اربوں کے اثاثے ڈکلیئرکرنیوالے کیلئی10ہزاردرہم ڈکلیئرکرنامشکل تھا ،مجھ سے متعلق مقدمے کی نوعیت مضحکہ خیزنہیں تواورکیاہے،میاں صاحب کی پیشی سے متعلق بیان میری ذاتی رائے تھی ،پارٹی پالیسی پر بیان نہ دینے کا فیصلہ مجھ تک نہیں پہنچا۔

(جاری ہے)

بدھ کو ایک نجی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں مریم نواز نے کہاکہ جو لوگ پہلے پلان بناتے رہے ہیں ان کو لندن اجلاس لندن پلان نظر آتا ہے ، اصل مقصد بیگم کلثوم نواز شریف کی عیادت تھی ، وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف بھی عیادت کے لئے گئے تھے ، پارٹی پالیسی بیان دینے کا حق پارٹی لیڈر شپ کا ہے ، پارٹی کے اندر سنیارٹی کی لائن کبھی کراس نہیں کی ، کسی کو اس معاملے پر پریشان نہیں ہونا چاہیے ۔

مریم نواز نے کہا کہ پارٹی میں کسی انکل سے کوئی پرابلم نہیں مسلم لیگ (ن) ایک جمہوری پارٹی ہے ۔ اس میں ہر کسی کو اپنی رائے دینے کا حق ہے ۔ جسے حالات ہوتے ہیں تجربات بھی اسی طرح کے ہوتے ہیں ۔ میری سخت باتوں کا لوگوں کو احساس ہوتا ہے مجھے نہیں ۔ والد میاں نواز شریف سے ڈانٹ بھی پڑتی ہے ۔ مریم نواز نے کہا کہ اپنے والد میاں نواز شریف کو واپس نہ آنے کے حوالے سے مشورہ میری ذاتی رائے تھی ۔

ایک مقدمے پہلے 3 ججوں نے مختلف فیصلہ دیا ۔ قوم کے سامنے سرکس لگائی گئی ۔ جے آئی ٹی کے جنات نے جس طرح کام کیا وہ حیران کن ہے ۔ والیم 10 دیکھا ہے اس میں کچھ بھی نہیں ۔ والیم 10 میں اگر کچھ ہوتا تو اقامہ پر فیصلہ نہ ہوتا ۔ جے آئی ٹی کی والیم 10 کو خفیہ رکھنے کی درخواست اصل میں جے آئی ٹی کو ثبوتوں کا نہ ملنا تھی ان کی ناکامی تھی ۔ جن ممالک سے ہمارے خاندان بارے پتا کرایا گیا وہاں سے ہمارے خلاف کوئی جواب نہیں آیا۔

مریم نواز نے کہا کہ ہمارے وکلاء نے پانامہ مقدمے میں جتنی شہادتیں دیں وہ مضبوط تھیں اگر درخواست گزار کے الزامات ہیں سچائی ہوتی تو فیصلہ اقامہ پر نہ ہوتا۔ نجی ٹی وی انٹرویو میں مریم نواز نے کہا کہ جنہوں نے منی ٹریل چھپائی وہ ٹھیک ہے ہم نے منی ٹریل نہیں چھپائی ثبوت کا ثبوت یہ ہے اگر ثبوت کمزور ہوتے الزامات میں سچائی ہوتی تو 10 ہزار درہم تنخواہ نہ لیتے ۔

ہر منتخب وزیر اعظم کو اسی طرح گھر نہ بھیجا جاتا ۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دھرنے کے وقت میں نے میڈیا محاذ سنھبالا۔ مریم نواز نے کہا کہ میں حق بات کرتی ہوں چاہے کسی کو جتنی بھی بری لگے ۔ اسی وجہ سے مجھے ڈان لیکس میں ٹارگٹ کیا گیا ۔ ڈان لیگ کے مرکزی کردار کو اللہ تعالیٰ نے اپنے انجام کو پہنچا دیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس کردار کا نام لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ کی ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بیٹی بھی ہوں۔

مجھے والد کا تحفظ عزیز ہے جو انسان بلیک میل ہونے سے انکار کردے اسے کبھی قبل ، کبھی ڈان لیکس سے ڈرایا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ مقدمہ کرپشن ، منی لانڈرنگ پر شروع ہوا تھا لیکن فیصلہ اقامہ پر ہوا ۔ فیصلے پر بہت کچھ کیا جا سکتا ہے ۔ منصف پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ ان منصفوں کو ایک دن جواب دینا پڑے گا ۔ الزام نہیں لگا رہی تلخ حقیقت بیان کر رہی ہوں ۔

مریم نواز نے کہا کہ میاں نواز شریف موقع پرست نہیں ہیں ۔ میاں نواز شریف کو حادثات اور واقعات نے نظریاتی بنا دیا ۔ چار سال میں میاں صاحب نے جو کمپرومائز کیے ان کا مقصد صرف ملک کی ترقی تھی ۔ ملک میں جمہوریت کو نقصان نہ پہنچے ۔ اس مقصد کے لئے میاں نواز شریف نے بہت کچھ برداشت کیا ۔ وہ سمجھوتے انہیں نہیں کرنے چاہئیں تھے ۔ میاں صاحب کی قربانی دینے کی اسپرٹ کمزوری کے طور پر لیا گیا۔

میاں صاحب کے پاس تمام آپشنز موجود ہیں ۔ این آر او کی بات کی جا رہی ہے انہیں این آر او کی ضرورت نہیں ان کے پیچھے پاکستان کی عوام ہے ۔ وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے ۔ دوسرا فریق کون ہے یہ بتائیں ۔ 7 سال کی جلا وطنی بھی ہو گئی ۔ میں نے بھی جلا وطنی کاٹی مریم نوز نے کہا کہ میاں صاحب نے خود اقرار کیا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی نہیں ہونی چاہیے ۔

مسلم لیگ (ن) نے ان غلطیوں سے سیکھا غلطیوں کی تلافی بھی کی ۔ ووٹ کی حرمت کی بت کرنا نقصان کا ازالہ بھی ہے ۔18 وزرائے اعظم کی حق تلافی کا معاملہ مریم نواز نے کہا کہ آصف علی زرداری سے اس طرح کی باتوں کی توقع نہیں ۔ کچھ لوگ استعمال ہو رہے ہیں ۔ زرداری صاحب رابطہ کرنے کے لئے لیڈرشپ موجود ہے پالیسی میرا کام نہیں یہ سچ بات ہے ۔ان کو سمجھنا چاہیے کہ نواز شریف تو پھر بھی قابل قبول ہیں زرداری صاحب تو کسی کو قبول نہیں، جب نواز شریف سے فراغت ہو جائے گی تو باقیوں کے ساتھ کیا حال ہوگا انھوں نے کہاکہ سب سے ضروری میاں صاحب کا پیغام عوام تک پہنچانا تھا ۔

عوام نے اس پیغام کو قبول کیا مائنس ون اس بات کا اعتراف ہے کہ نااہل کرنے کے اہداف پورے نہیں ہوئے ، کسی ایک ادارے میں تمام اداروں کا احترام ہونا چاہیے ۔ دیگر آئینی ادارے ہیں تو پارلیمنٹ آئین ساز ادارہ ہے ۔ آصف علی زرداری نواز شریف کو گرانے کی سازش میں استعمال ہو رہے ہیں ۔ نواز شریف اس وقت بھی قابل قبول ہیں کچھ لوگ تو قابل قبول ہی نہیں ہیں ۔

مریم نواز نے چوہدری نثار علی خان کے بیانات کے حوالے سے کہا کہ چوہدری نثار نے تمام باتیں ہمدردی میں کیں ۔ انہوں نے کہا کہ کیا انصاف تنقید سے مشروط ہے کہ تنقید کریں گے تو انصاف نہیں ملے گا اور تنقید نہیں کریں تو انصاف ملے گا ۔ فیصلہ عجلت میں کیا گیا میں بھی یہی کہہ رہی ہوں این اے 120 میں انتخابی مہم کے حوالے سے کہا کہ حمزہ شہباز نے اس حلقے میں بہت محنت کی ہے ۔

انہیں کہیں جانا پڑا تھا ذاتی وجوہات کی بنا پر انتخابی مہم مجھے سنبھالنی پڑی ۔ مریم نواز نے کہا کہ میں نے جو باتیں این اے 120 کا الیکشن جیتنے پر کیں میں نے وہ ساری چیزیں دیکھی تھی ۔ اگر آئندہ عام انتخابات میں بھی ایسا ہو تو پھر لیڈر پش کی ذمہ داری بنتی ہے ۔ ان ساری چیزوں کی جھلک اینے اے 4 کے الیکشن میں بھی نظر آئی ۔ میڈیا کو این اے 4 میں رسائی نہیں دی گئی ۔

مریم نواز نے کہا کہ ووٹر اور سپورٹر بہت ذہین ہیں ۔ گلیوں میں پھرنے والی عوام سب جانتی ہے ۔ جو کام پچھلے چار سال میں ہوئے وہ 40 سال پر بھاری ہیں ۔ پانامہ مقدمہ ، کرپشن ، منی لانڈرنگ ، اتھارٹی کے غلط استعمال کا نہیں وگرنہ ثبوت عوام کے سامنے آچکے ہوتے ۔ پانامہ پیپرز والوں نے خود لکھا کہ اس میں کرپشن کا الزام نہیں ۔ فیملی معاملات کے لئے اگر کسی نے کمپنیاں بنائیں تو کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ بھری عدالت میں یہ سوال کیا جائے کہ بیٹی باپ کے گھر میں کیوں رہتی ہے ۔

بیٹے نے باپ کو تحائف کیوں دیئے ۔ ہمارے خاندان کی تذلیل کی گئی ۔ کبھی سسلین مافیا کہا گیا ۔ مقدمہ چلنے کے دوران انصاف کا جو قتل عام ہوا اسے ساری دنیا نے دیکھا ۔ میاں نواز شریف پر جو ریفرنس بنائے گئے ہیں ان میں تینوں ادوار میں ایک بھی کرپشن کا الزام نہیں لگایا گیا ۔ الزام یہ لگایا گیا کہ میاں نواز شریف کے بیٹے جو کاروبار کرتے ہیں وہ پیسہ میاں صاحب کا ہے ۔

حسین نواز 46 سال کا ہے اپنا کاروبار بہت سالوں سے کر رہا ہے ۔ میاں صاحب 90 کی دہائی میں اپنے بزنس سے علیحدہ ہو گئے تھے ۔ حسن حسین کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ان کو والد سے نہیں آیا وہ دادا سے آیا وہ اس ارب پتی دادا کے پوتے ہیں جو 80 کی دہائی میں پاکستان کا امیر ترین شخص تھا ۔شہباز شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا فیملی معاہدے پر ساری فیملی ممبرز کے دستخط موجود ہیں ۔

کسی عدالت کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ فیملی معاہدوں کو اخباروں کی سرخیاں بنائیں ۔ جہانگیر ترین کا جب کیس چل رہا تھا تو ان کے وکیل نے کہا کہ فیملی معاملات کو عدالت میں ڈس کلوز کرنے کی ضرورت نہیں میرے اور بھائی کے درمیان پراپرٹی معاہدے پر عدالت میں دوہرا معیار اپنایا گیا ۔ اگر میں ان پراپرٹیز کی مالک ہوں تو ثبوت کہاں ہیں ۔ مریم نواز نے اپنے خاوند کیپٹن( ر) صفدر کی قومی اسمبلی میں تقریر کو ذاتی رائے قرار دیتے ہوئے کہا کہ نہ میں اور نہ پارٹی ان کے بیان کو قبول کرتے ہیں وہ ان کی ذاتی رائے تھی ۔ پارٹی نے اس معاملے پر کیپٹن صفدر سے جواب طلبی بھی کی ۔