عقیدہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، ختم نبوت کے حوالہ سے انتخابی قانون 2017ء میں حلف نامہ میں ہونے والی غلطی کا فوری ازالہ کرکے اسے اپنی اصل حالت میں بحال کر دیا گیا ہے، جڑواں شہروں کے رہائشیوں، طالب علموں، مریضوں، ملازمین سمیت لاکھوں افراد کو فیض آباد میں دھرنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے، یہ سلسلہ مزید برداشت نہیں کر سکتے، آخری بار دھرنے والوں سے بات چیت کریں گی

وفاقی وزرا ء سردار محمد سردار یوسف، طلال چوہدری اور طارق فضل چوہدری کی مشترکہ پریس کانفرنس

منگل 14 نومبر 2017 19:30

عقیدہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 نومبر2017ء) حکومت نے واضح کیا ہے کہ عقیدہ ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، ختم نبوت کے حوالہ سے انتخابی قانون 2017ء میں حلف نامہ میں ہونے والی غلطی کا فوری ازالہ کرکے اسے اپنی اصل حالت میں بحال کر دیا گیا ہے، جڑواں شہروں کے رہائشیوں، طالب علموں، مریضوں، ملازمین سمیت لاکھوں افراد کو فیض آباد میں دھرنے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے، یہ سلسلہ مزید برداشت نہیں کر سکتے، آخری بار دھرنے والوں سے بات چیت کریں گے، اس کے بعد قانون و آئین کے مطابق کارروائی ہو گی، حلف نامہ میں تبدیلی کے حوالہ سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے مسلم لیگ کے سینئر رہنمائوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی ہے جو اس کا ہر پہلو سے جائزہ لے رہی ہے، اس کی رپورٹ ایک ہفتہ میں سامنے آنے کی توقع ہے۔

(جاری ہے)

منگل کو پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد سردار یوسف، وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری اور وزیر مملکت برائے کیڈ طارق فضل چوہدری نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لاہور سے اسلام آباد تک دھرنے والوں کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی تاہم انہوں نے وعدہ خلافی کی، ہم نے 8 روز سے دھرنے اور احتجاج کے نام پر سڑکیں بلاک کرنے والوں سے مذاکرات کرکے معاملہ حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، ہماری ترجیح ہے کہ یہ معاملہ بلاشبہ مذاکرات سے ہی حل ہونا چاہئے، نبی اکرمؐ کی تعلیمات کی بات کرنے والوں نے سب سے پہلے اس کی نفی کی اور شاہراہیں بند نہ کرنے کے اپنے وعدہ سے انحراف کیا۔

وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کہا کہ پاکستان میں 97 فیصد مسلمان رہتے ہیں، ختم نبوت پر تمام مسلمانوں کا پختہ ایمان ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں، 73ء کے آئین میں بھی عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے واضح قانون ہے، ختم نبوت پر ایک وزارت نہیں ہزاروں وزارتیں قربان کی جا سکتی ہیں۔ کسی کو کوئی شک و شبہ ہے تو ہمارے پاس آئے اور بات چیت کرے۔

ختم نبوت کی تنظیم مکمل طور پر غیر سیاسی ہے، وفد کو مطمئن کیا تھا۔ قرآن اور حدیث کے متصادم کوئی قانون بنانے کا سوچ بھی نہیں سکتے، دھرنے سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، معمولات زندگی شدید متاثر ہیں، حلف نامے میں غلطی کا نوٹس لے کر اسے فوری دور کیا۔ قومی اسمبلی اور حکومت نے ذمہ داری نبھائی اور اس وجہ سے مسئلہ تھا بھی نہیں، اس کے باوجود بھی اگر کسی کو یہ شک و شبہ ہے تو وہ ہم سے بات کرے، حکومت بات چیت کے لئے تیار ہے، ہم کسی سے بھی بات کر سکتے ہیں اور حقائق کو سامنے رکھ سکتے ہیں۔

مجھے الله وسایا صاحب کا خط ملا اور ان کا ایک وفد ملا ان سے ملاقات ہوئی یہ ساری چیزیں ان کے سامنے رکھیں ہم مطمئن ہیں چونکہ ختم نبوت کی الله وسایا کی تنظیم غیر سیاسی تنظیم ہے اور ان کا کسی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حج کے حوالے سے بھی غلط افواہوں کی ہم نے وضاحت کی ہے۔ یہ ساری چیزیں ہماری ذمہ داریوں سے ہٹ کر الله اور رسول پر چونکہ ایمان کا عقیدہ ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے اپنے مسلک پر جان بھی قربان کرتے ہیں۔

پاکستان الله کے فضل و کرم سے اسلام کے نام پر حاصل ہوا، 73ء کے آئین میں کوئی قانون ایسا بن ہی نہیں سکتا جو اسلام اور قانون سے متصادم ہو۔ ختم نبوت پر مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اور ہم سب کا ایمان ہے اور اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ پچھلے 8 روز سے دھرنا اور روڈ بلاک ہے اور دھرنے اور احتجاج کے نام پر بہت ساری کارروائیاں اور بہت سی کوششیں کی گئی ہیں۔

سب سے پہلے تو حکومت نے کوشش کی کہ یہ معاملہ مذاکرات سے حل ہو اور یہ مذاکرات سے ہی حل ہونا چاہئے، دھرنے میں آئے لوگوں کے ساتھ سب سے پہلے مذاکرات میں میں خود وزیر، مملکت کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چودھری، وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر حسنات شامل ہوئے، پہلے دن ہی ان کے مطالبات کو سنا گیا لیکن وہ بات اس وجہ سے آگے نہ بڑھ سکی کہ اس میں کئی ایسی چیزیں جو غیر قانونی بھی تھیں اور آئین کے خلاف بھی تھی، حکومت کے پاس آئین و قانون سے باہر کوئی چیز منظور کرنے کا مینڈیٹ نہیں ہے۔

پنجاب حکومت بھی مذاکرات کرتی رہی، لاہور سے راولپنڈی اور اسلام آباد تک انہیں سہولت فراہم کی گئی وہ سہولت سے یہاں آئے مگر افسوس ہے کہ جو دین کے نام پر لوگ آئے انہوں نے وعدہ خلافی کی۔ انہوں نے لاہور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ روڈ بلاک یا کوئی ایسا کام نہیں کریں گے، رکاوٹ نہیں ڈالیں گے جس سے عام لوگوں کو تکلیف ہو، وہ کسی ایسی جگہ بیٹھیں گے جہاں سے انتظامیہ سے بات چیت ہو سکے اور احتجاج بھی ریکارڈ کرا سکیں۔

افسوس ہے کہ حضور اکرمؐ کی تعلیمات کی بات کرنے والوں نے سب سے پہلے اپنے وعدے کی خلاف ورزی کی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ آٹھ روز کے دوران کئی واقعات ہوئے۔ دین اسلام میں یہ گنجائش نہیں کہ آپ مریضوں کا راستہ روکیں، عام شہریوں کا راستہ روکیں، طالب علموں کا راستہ روکیں یا غیر قانونی کچھ ایسی چیزوں پر مطالبہ کریں، حکومت نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا۔

اس کی کئی وجوہات تھیں اور حکومت نہیں چاہتی کہ کوئی ایسا اقدام اٹھائے، حکومت کی خواہش ہے کہ معاملہ مذاکرات سے حل ہو۔ یہ چند سو لوگ ہیں، ان پر کسی بھی قسم کا طاقت کا استعمال کر کے انہیں چند منٹوں میں ہٹایا جا سکتا تھا، مگر بات چیت کی گئی، ہماری انتظامیہ بھی ان سے بار بار بات چیت کرتی رہی لیکن بات صرف ایک بات پر آ گئی کہ وزیر قانون کو ہٹایا جائے، وزیر قانون کو ہٹانے کی وجہ پوچھی گئی تو کوئی وجہ ان کے پاس نہیں۔

زاہد حامد کی ختم نبوت قانون کو دوبارہ بحال کرنے میں جو کاوشیں ہیں وہ لوگوں کے سامنے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، ابھی تک ہماری انکوائری کمیٹی جو نواز شریف نے بنائی ہے، اس میں کوئی ایسی بات نہیں آئی کہ کسی فرد کی غلطی، کوتاہی کی وجہ سے اس میں کوئی تبدیلی آئی ہو۔ زاہد حامد کا دور دور تک ذکر نہیں اور یہ مطالبہ کیسے مانا جا سکتا تھا کہ اس آدمی جس کا کوئی گناہ نہیں اسے ہٹا دیا جائے۔

حکومت نے اس پر بات کرنا اور اس پر بات بڑھانا مناسب نہیں سمجھا۔ اس کمیٹی میں ظفر الحق اور دو سینئر مسلم لیگی شامل ہیں، اس کمیٹی میں پیپلز پارٹی ، جے یو آئی ایف اور شیخ رشید سمیت تمام جماعتیں شامل تھیں، کسی نے اعتراف نہ کیا اور نہ کمیٹی بنائی۔ ہمیں کسی کو دکھانے کی ضرورت نہیں کہ ہمارا ایمان کتنا مضبوط ہے۔ وہ بھی میاں نواز شریف کا جنہیں جب وقت ملے وہ در مصطفیٰ پر اپنا وقت گذارتے ہیں وہ سیاسی سکور کے لئے نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی لیڈر شپ کے ہوتے ہوئے کہ ہماری پارٹی میں کوئی ایسی بات نہ ہو، انہوں نے کمیٹی بنائی۔

ماضی میں تحریکیں گذری ہیں، راجہ ظفر الحق کا خصوصی رول ہے ان میں، اس کی رپورٹ ایک ہفتے میں آنے کی امید ہے۔ رپورٹ سے پہلے کسی عبوری رپورٹ پر کوئی فیصلہ حکومت نہیں کرے گی۔ کسی فرد کی غلطی کا اس میں کوئی نشاندہی نہیں ، اس کے علاوہ پھر کوشش کی گئی کہ اس دھرنے کے بعد پورے پاکستان میں روڈ بلاک کئے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے پاس یہ اختیار اور اہلیت موجود ہے کہ اس طرح کے چند سو افراد کو کسی بھی وقت اپنی آئینی اور قانونی قوت کا استعمال کر کے ان کو ہٹا دیا جائے۔

ہم ابھی بھی ایک مرتبہ پھر انہیں بات چیت سے یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں، یہ ناقابل برداشت ہے کہ مریضوں، ملازمین اور طالب علموں کا رستہ روکا جائے۔ کچھ دیر میں کوشش کر رہے ہیں کہ یہ معاملہ مذاکرات سے حل ہو اور حل نہیں ہوگا تو راستہ چھوڑنا پڑے گا۔ راستہ صاف ہونا چاہئے۔ راستوں پر بیٹھ کر لوگوں کو تکلیف دے کر اس طرح کے مطالبات نہیں کئے جا سکتے۔

یہ دھرنوں کا رواج جس نے ڈالا تھا آج جب ہم اسی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور روڈ کی ایسی جگہ پر بیٹھ کر لوگوں کو تکلیف دے کر اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرتے ہیں ہم دوبارہ ایک دفعہ کلیئر کر دیں، مذاکرات پنجاب حکومت، وفاقی حکومت نے کئے ان کا نتیجہ اس لئے نہیں نکلا کہ کئی مطالبات قانون اور آئین کے دائرہ سے باہر ہیں۔ حکومت کی پالیسی کسی غیر قانونی مطالبے کو ماننے کیلئے نہیں ہے، حکومت سوچ رہی ہے کہ یہ معاملہ مذاکرات سے حل نہ ہوا تو اس کا کوئی اور حل نکالا جائے گا۔

راولپنڈی اسلام آباد کے شہریوں کو درپیش تکلیف کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ مذاکرات آئین اور قانون کے دیئے گئے دائرہ کار میں ہی ہو سکتے ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد کے شہریوں کی مشکلات پر معذرت خواہ ہیں۔ ٹریفک پلان کے باوجود شدید ترین مشکلات ہیں، ہم میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے پورے آٹھ دن میں بہت ذمہ داری سے رپورٹنگ کی۔ میڈیا کی ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ حکومت گاہے بگاہے اس سلسلے میں بریف بھی کرے گی جب تک یہ معاملہ چل رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :