پا کستان بھارت سے کشمیر ،سیاچن اور سرکریک سمیت تمام مسائل پر مذاکرات کیلئے تیار ہے،ترجمان دفتر خارجہ

جمعرات 16 نومبر 2017 14:39

پا کستان بھارت سے کشمیر ،سیاچن اور سرکریک سمیت تمام مسائل پر مذاکرات ..
اسلام آ باد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 نومبر2017ء) ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے کہا ہے کہ پا کستان بھارت سے جموں و کشمیر ،سیاچن اور سرکریک سمیت تمام مسائل پر بات چیت کے لئے تیار ہے، بھارت کے جارہا نہ اقدامات علاقائی امن کے لیے نقصان دہ ہیں،پاکستانی افواج خطے میں کسی بھی مہم جوئی کا جواب دینے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہیں،بھارت کی جانب سے کروز میزائل کے تجربے پر کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی،بھارت کی جانب سے میزائل پروگرام کے لیے بجٹ میں اضافہ اور اسلحے کے ذخائربڑھانے سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافہ ہو گا، پاکستان مسئلہ کشمیر پر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا،پاکستان اور چین سی پیک پر اقتصادی خوشحالی کے لیے کام جاری رکھیں گے ،بھارت کی جانب سے مختلف بیانات میں سی پیک کے خلاف اس کی خفیہ ایجنسی را کے سیل کی تصدیق ہوتی ہے،لندن میں پاکستان مخالف مہم کے ذمہ داران کے خلاف تحقیقات کے بعد کاروائی کی امید رکھتے ہیں،پاکستان کی جانب سے کل بھوشن جادیو کی اس کی اہلیہ سے ملاقات کی پیشکش کے حوالے سے بھارت کے جواب کا انتظار ہے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ دیتے ہوئے اپنے ابتدائی بیان میں انہوں نے کہاکہ گزشتہ روز بھارت کے ڈپٹی ہایی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا۔ان سے چڑی کوٹ میں بلا اشتعال فایرنگ اور پاکستانی خاتون کی شہادت پر احتجاج کیا گیا۔رواں برس بھارت نے ایل او سی کی 13 سو سے زائد خلاف ورزیاں کی ہیں۔پاکستان نے افغانستان کی جانب سے سرحد پار دہشت گرد حملے کی مزمت کی ہے۔

اس حملے میں کیپٹن جنید حفیظ اور سپاہی راحم شہیدہوئے۔حملے پر افغان ناظم الامور کو طلب کر کہ احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ایران کو تباہ کن زلزلے پر امداد کی پیشکش کی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں حریت قیادت کو پابند سلاسل رکھا گیا ہے۔800 سے زائدکشمیری بھی بھارت کی غیر قانونی قید میں ہیں۔ہم مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بھرپور مزمت کرتے ہیں۔

پاکستان نے جینوا میں انسانی حقوق کونسل میں قومی رپورٹ پیش کر دی۔117 سے زائد ممالک نے اس موقع پر شرکت کی۔ بڑی تعداد میں ممالک نے پاکستان میں 2012کے بعد انسانی حقو ق کے حوالے سے آ نے والی بہتری کو تسلیم کیا ہے اور سراہا ہے ۔ہم نے کل بھوشن جادیوکی اہلیہ کی اس سے ملاقات کی پیشکش کی ہے۔پاکستان کی جانب سے کل بھوشن جادیو کی اس کی اہلیہ سے ملاقات کی پیشکش انسانی بنیادوں پر کی گئی۔

بھارت کی جانب سے اس پیشکش کاجواب کا انتظار ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پاکستان نے ہمیشہ سارک کے فورم پر فعال کردار ادا کیا ہے۔ہم سارک سیکریٹریٹ سے رابطہ میں ہیں۔امید ہے کہ سارک کی آئندہ کانفرنس جلد اسلام آباد میں ہی منعقد کی جاے گی۔ریلوی, موٹر ویکلز اور باہمی منسلکی پر سارک کے معاہدے موجود ہیں۔بھارت جب تک سارک میں آ کر بیٹھے گا نہیں وہ کیسے پاکستان کو مورد الزام ٹہرا سکتا ہے۔

پاکستان بھارے سے جموں و کشمیر ،سیاچن اور سرکریک سمیت تمام مسایل پر بات چیت کو تیار ہے۔تاہم ابھی تک بھارت کی جانب سے جواب کا منتظر ہے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت کی جانب سے کروز میزائل کے تجربے پر کوئی پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔اس سے خطے کے امن کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔بھارت کی جانب سے میزائل پروگرام کے لیے بجٹ میں اضافہ اور اسلحے کے ذخائربڑھانے سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافہ ہو گا۔

برطانیہ کی جانب سے پاکستان مخالف بینرز مہم کی روک تھام کے حوالے سے فوری اقدامات کو سراہتا ہے ۔لندن میں پاکستان مخالف مہم کے ذمہ داران کے خلاف تحقیقات کے بعد کاروائی کی امید رکھتے ہیں۔ افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ایک حقیقت ہیں۔افغانستان کے ہمسائیہ ممالک بشمول پاکستان اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔پاکستانی افواج اسی وقت فائر کرتی ہیں جب ان پر فائر کیا جاتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر پر پاکستان کا ایک موقف ہے جس پر وہ 70 برس سے کھڑا ہے۔ہم مسئلہ کشمیر پر اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں جن سے بات کیے بغیر اس مسئلہ کا حل تلاش نہیں کیا جا سکتا۔یہ فریق پاکستان ،بھارت اور کشمیری ہیں۔انہوں نے کہاکہ پاکستان اور چین سی پیک پر اقتصادی خوشحالی کے لیے کام جاری رکھیں گے۔

بھارت کی جانب سے مختلف بیانات میں سی پیک کے خلاف اس کی خفیہ ایجنسی را کی سرگرمیوں حوالے سے اس کے سیل کی تصدیق ہوتی ہے۔ایک سوال کے جوا ب میں انہوں نے کہاکہ امریکہ کے ساتھ اتحادی سپورٹ فنڈ پر جامع بات چیت ہوئی ہے۔نتیجہ آنے تک اس پر مزید بات نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے کہاکہ بھارت کے جارہا نہ اقدامات علاقائی امن کے لیے نقصان دہ ہیں۔پاکستانی افواج خطے میں کسی بھی مہم جویی کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ مسلم اقلیتوں کے حقوق کی بات کی ہے۔یورپی پارلیمان میں کشمیر کے حوالے سے تواتر سے آواز اٹھائی جاتی ہے۔پاکستان اپنی ہمسائیگی میں ایک پرامن اور معتدل افغانستان چاہتا ہے۔